اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک،اے پی پی ) وفاقی کابینہ کی ای سی ایل سے متعلق ذیلی کمیٹی نے اتفاق رائے سے صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کردی۔وفاقی کابینہ کی ای سی ایل سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں نیب کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعدشہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ، شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی حتمی منظوری کابینہ دے گی۔اجلاس میں وزیرقانون فروغ نسیم، وزیرداخلہ شیخ رشید ، مشیر احتساب شہزاد اکبر اورنیب کے حکام بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئے ۔اجلاس کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے مشیر احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاتین رکنی کمیٹی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کو درست تصور کیا اور متفقہ طور پر کابینہ کو سفارش کردی ہے ، شہباز شریف حدیبیہ پیپر ملز کیس سے خوفزدہ ہو کر بھاگ رہے تھے ، شریف خاندان کے 5افراد ملک سے مفرورہیں،تمام 14 ملزمان کے نام ای سی ایل میں ہیں،جب سب ملزمان کے نام ای سی ایل میں ہیں تو کسی ایک کا نام نکالنے کے لئے خصوصی اقدامات نہیں کئے جا سکتے ، کسی ایک ملزم کے ساتھ خصوصی سلوک نہیں ہو سکتا،شہبا ز شریف 15 دن میں اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دے اور خود بھی کمیٹی میں پیش ہو سکتے ہیں، ان کی نظر ثانی درخواست آنے پر وزارت داخلہ 90 دن میں فیصلہ کرے گی، ہمیں شہباز شریف کی میڈیکل گرانٹ سمیت کسی بھی صورتحال سے آگاہ نہیں کیاگیا، جبکہ پہلا کیس طبی بنیاد پر تھا،ان کی جانب سے کوئی درخواست نہیں ملی۔ عدالت کا ایک فیصلہ بلیک لسٹ کے حوالے سے ہے لیکن شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ پر نہیں بلکہ 7 مئی 2021 کے آرڈر پر ہیں، 3 چیزیں ہوتی ہیں، نمبر ایک بلیک لسٹ جو پاسپورٹ آفس ڈالتا ہے ، دوسرا پی این آئی ایل جو ایف آئی اے ڈالتا ہے اور تیسرا کابینہ کی تین رکنی کمیٹی کو فیصلہ کرکے کابینہ کو بھیجنا ہوتا ہے ۔شیخ رشید نے کہاوزیر اعظم سچے عاشق رسولﷺ ہیں، آپ تو 2017میں آئے ، عمران خان اور میرے لئے 27ویں شب روضہ رسول ﷺ اور خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا،وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے ثمرات عید کے بعد ملیں گے ، عمران خان سعودی عرب دنیا کے اہم فیصلے کرنے گئے تھے ،سعودی عرب کے ساتھ معاہدے کے تحت 1100 پاکستانی قیدیوں کو وطن واپس لایا جائے گا، اگر وزارت داخلہ کو ایک ارب روپے مل جائیں تو سینکڑوں قیدیوں کو وطن واپس لایا جا سکتا ہے تاہم منشیات اور سزائے موت کے مقدمات میں ملوث ملزموں کو واپس نہیں لارہے ، چاولوں کی بات کرنے والوں کی سوچ نابالغ ہے ، اپوزیشن کی سوچ فطرانے اور چاولوں والی ہے ،کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی نظرثانی درخواست کا انتظار کر رہے ہیں اور انہیں بھی خود پیش ہونے کی اجازت ہے ،ٹی ایل پی کے 1677 افراد کو 16 ایم پی او کے تحت رہا کردیا گیا، 280 ایف آئی آرز درج ہیں، یہ لوگ قانونی عمل سے گزریں گے ، 16 ایم پی او کے تحت 1074 افراد کو عدالت نے رہا کیا، باقی 1677 افراد حکومت نے رہا کردیئے ، 25 لوگوں کے کیسز بھی ختم کردیئے گئے ہیں۔غزہ میں ہونے والے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیں،آئی جی اسلام آباد کو امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے ۔مشیر احتساب شہزاد اکبر نے کہا شہباز شریف ، نواز شریف کے ضمانتی ہیں، وہ کیسے ملک سے باہر جا سکتے ہیں،شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز ، چوہدری شوگر ملز سمیت احتساب عدالت لاہور میں منی لانڈرنگ کے مقدمات بھی چل رہے ہیں، ان کے بیرون ملک جانے سے یہ کیسز التوا کا شکار ہو جاتے اور دوسرے ملزمان کا مقدمہ بھی متاثر ہوتا، موجودہ حالات میں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی،حدیبیہ پیپر ملزکیس غیر حل شدہ ہے ، قانون کے مطاق اگر کوئی کیس چاہے وہ بند بھی ہو تو نئے شواہد ہونے پر کیس کھولا جا سکتا ہے ،مسلم لیگ ن گمراہ کن بیانیے پر عمل پیرا ہے ، ان کا حدیبیہ پیپر ملز سے بریت کا کہنا درست نہیں، مقدمہ ٹیکنیکل بنیادوں پر بند ہوا اور یہ تمام مقدمات کی ماں ہے ،، پھر جس ادارے کو اپیل کرنا تھی اس نے وقت پر اپیل نہیں کی اور بعد میں سپریم کورٹ نے یہی کہنا تھا کہ وقت گزر چکا ہے ، اس لیے شواہد پر یہ کیس بند نہیں ہوا،یہ معاہدہ کرکے جدہ چلے گئے جس کے بعد کیس بند کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت کے اٹارنی جنرل اور نیب نے کہا اس مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتے جس کے بعد یہ مقدمہ ختم ہوا لیکن حقیقت میں یہ ختم نہیں ہوا،ہم نے اٹارنی جنرل سمیت قانونی ماہرین سے مشاورت کی ہے ، ان کی رائے کے مطابق یہ مقدمہ کھل سکتا ہے ، شریف خاندان نے 1990 میں قاضی خاندان کے نام پر منی لانڈرنگ کی، اسحاق ڈار نے اس معاملے پر عدالتی افسر کے سامنے 164 کا بیان حلفی دیا، یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے ،1990 ئمیں قاضی فیملی کے ذریعے ملک کو لوٹا اور 2000 کے بعد منظور پاپڑ والا جیسے لوگوں کے ذریعے لوٹ مارکی اور ٹی ٹیز لگائیں۔،تحقیقات کرنے والے ادارے کا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ملز م روک سکتا ہے ، حقائق کے لحاظ سے حدیبیہ کیس بند ہوا ختم نہیں ، بریت نہیں ہوئی تھی، کیس کو کسی عدالت میں چارج شیٹ نہیں کیا گیا تو پھر بند ہی ہونا تھا،کیس کی کسی ایک عدالت میں بھی سماعت نہیں ہوئی۔