آج (23 اکتوبر کو ) ’’نواسۂ بھٹو ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی ۔ پی۔ پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اُن کے بابا سائیں ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے صدر ، آصف علی زرداری اور دونوں پارٹیوں کے قائدین اور کارکنان ، پاکستان کے پہلے سِولین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر منتخب وزیراعظم پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ سابق خاتونِ اوّل پاکستان ، بیگم نصرت بھٹو کی ساتوی برسی منا رہے ہیں ۔ بیگم نصرت بھٹو کا انتقال 23 اکتوبر 2011ء کو ہُوا تو ان کے پاس’’ پی ۔ پی ۔پی۔ / پی ۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ 

23 اکتوبر 2015 ء کو ، بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی تھی جب، صدرِ پاکستان کی حیثیت سے آصف زرداری صاحب نے اپنی ’’ خوش دامن‘‘ کو ’’ مادرِ جمہوریت‘‘ (Mother of Democracy) کا خطاب دِیا تھا۔ شادی سے پہلے بیگم نصرت بھٹو کا نام نصرت اصفہانی ؔتھا ۔وہ 23 مارچ 1929ء کو ایران کے شہر اصفہانؔ میں پیدا ہوئی تھیں ۔ 8 دسمبر 1951ء کو ذوالفقار علی بھٹو سے اُن کی ، پہلی بیگم (محترمہ امیر بیگم ) کی زندگی ہی میں ، مِس نصرت اصفہانیؔ کی شادی ہُوئی تو وہ بیگم نصرت بھٹو کہلائیں۔ معزز قارئین! ۔ مرحومہ بیگم نصرت بھٹو کی ساتویں برسی سے ایک دِن پہلے کل (22 اکتوبر کو ) اُن کے داماد اور ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے صدر آصف زرداری صاحب نے اسلام آباد ؔمیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے ایک بار پھر منتخب وزیراعظم عمران خان کو "Selected Prime Minister' قرار دیتے ہُوئے کہا کہ’’ اسلام آباد سازشوں ؔکا شہر ہے ‘‘۔ ( یعنی ۔ "City of Conspiracies") !‘‘۔

حیرت ہے کہ ، جِس شہر کے تخت پر بیٹھ کر زرداری صاحب کے ( روحانی والد ) ذوالفقار علی بھٹو، (ان کی بیگم صاحبہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور خود زرداری صاحب ) نے بچے کھچے پاکستان ( جِسے جنابِ بھٹو نے نیا پاکستان کا نام دِیا تھا ) حکومت کی، وہ اب وزیراعظم عمران خان کے دَور میں سازشوں ؔکا شہر کیسے ہوگیا؟۔ آصف زرداری صاحب! کوئی بھی شہر ، سازشوں کا شہر نہیں ہوتا البتہ اگر اُس میں کچھ یا زیادہ سازشی لوگ بستے ہُوں تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’فلاں شہر میں سازشی بھی ہیں !۔شہرؔ ۔ فارسی زبان کا لفظ ہے جسے عربی زبان میں مدینہ ؔکہتے ہیں۔ حضور پُر نور ؐ اور صحابۂ کرامؓ ۔شہر مکّہ ؔسے ہجرت کے بعد شہر یثرب ؔمیں آباد ہُوئے تو یثرب ؔکا نام ’’ مدینۃ اُلنبیؐ  ‘‘ ہوگیا ۔ یعنی۔ نبیؐ  کا شہر۔ بعد ازاں آنحضرت ؐ  ’’ مدینۃ اُلعلم‘‘( علم کا شہر ) کہلائے اور حضرت علی مرتضیٰ ’’باب اُلعلم ‘‘ ( علم کا دروازہ)!۔

اسلامؔ کے نام پر ، شہر اسلام آباد ؔکی بنیاد ، صدر محمد ایوب خان کے دَور میں ،دو ولیوں۔ پیر سیّد عبداُلطیف شاہ قادری قلندری المعروف بری امامؒ (1617ء ۔ 1705ئ) اور حضرت سیّد ، پیر مہر علی شاہ ؒ  آف گولڑہ شریف (1859ئ۔ 1937ء ) کے ، زیر سایہ 1960 ء میں رکھی گئی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وفاقی وزیر تھے ۔ اِس لحاظ سے شہر اسلام آباد کو ’’سازشوں کاشہر ‘‘کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات کہ مختلف ادوار میں بعض سیاستدان حکمرانوں یا اُن کے اتحادیوں کی حیثیت سے ، قوم یا مخالف سیاستدانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے ؟۔ اسلام آباد میں سب سے بڑی سازش تو اُس وقت ہُوئی، جب صدر جنرل محمد یحییٰ خان کے دَور میں دسمبر 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے، شیخ مجیب اُلرحمن کی عوامی لیگ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری ۔اصولی طور پر شیخ مجیب اُلرحمن کو وزیراعظم بنایا جانا تھا ۔

پھر کیا ہُوا کہ، مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی دوسری بڑی پارٹی ( پاکستان پیپلز پارٹی ) کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی ( اپنی پارٹی) کے لئے بھی شرکتِ اقتدار کا مطالبہ کِیا۔صدر جنرل محمد یحییٰ خان ، بھٹو صاحب کے جھانسے میں آگئے جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا اور 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لِیا۔ بھٹو صاحب کی چیئرمین شِپ میں 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ، پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہُوئی تو ، اُس کے چار راہنما اصولوں میں سے ایک اصول تھا کہ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘لیکن، جنابِ بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنی پارٹی میں کبھی بھی جمہوریت قائم نہیں کی۔ 

5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء اُلحق نے وزیراعظم بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالا ۔ بھٹو صاحب کے اقتدار ہی میں 1975ء میں اُن کے خلاف قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش ؔ کا مقدمہ درج تھا۔ معزول وزیراعظم ، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے ، اُس مقدمے میں گرفتار ہو کر جیل گئے تو، اُنہوں نے اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن ؔنامزد کردِیا۔ جب کہ ’’ بابائے سوشلزم‘‘ شیخ محمد رشید سینئر وائس چیئرپرسن اور میاں محمود علی قصوری وائس چیئرپرسن کی حیثیت سے موجود تھے !۔ 

کچھ عرصہ بعد ، (پی۔ پی۔ پی) کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو، پارٹی کی  ’’شریک چیئرپرسن‘‘ (Co-Chairperson) نامزد کردِیا۔ (حالانکہ ’’پی۔ پی۔ پی‘‘کے اساسی دستور میں شریک چیئرپرسن کا کوئی عہدہ موجود نہیں تھا۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور (دسمبر 1993ئ) میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’پی۔پی۔ پی‘‘ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ( سب کے سب ) نامزد ارکان کا اجلاس طلب کِیا ، جِس کی خبر چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کو نہیں دِی گئی۔ پھر اُس اجلاس میں بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کر کے اُن کی جگہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن منتخب کرلِیا گیا۔ اِس عمل کو بھلا کوئی کیوں سازش کہے گا ؟۔ 

کمال یہ ہُوا کہ ’’ چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے ’’ مجازی خُدا‘‘ آصف علی زرداری کو ’’ پی۔ پی۔ پی‘‘ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا۔ یہ اُن کی مرضی تھی؟۔ 27دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا تو، آصف زرداری صاحب نے اُن کی مبینہ ؔ ، برآمدہ وصیت کے مطابق اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’ بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود شریک چیئرپرسن منتخب ہوگئے ۔ اِسے بھلا سازش کون کہہ سکتا ہے؟۔ 10 اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ نہیں کرائی گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھٹو خاندان کے دو وفاداروں مخدوم امین فہیم اور راجا پرویز اشرف کی چیئرپرسن شِپ اور سیکرٹری جنرل شِپ میں ایک نئی پارٹی رجسٹرڈ کرائی جِس کا نام تھا ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ پی) جس کا انتخابی نشان تھا ۔ ’’ تیر‘‘ (Arrow) ۔

25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رجسٹرڈ تھی جس کا انتخابی نشان تھا تلوارتھا۔ مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد آصف زرداری ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے صدر ہیں اور اُن ہی کی پارٹی ( پی۔ پی۔ پی) کے منتخب ارکان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان ہیں ۔ چیئرمین بلاول بھٹو خُود اپنے بابا سائیں کے پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں اُن کے لیڈر ہیں۔ کیوں کہ اُن کی پارٹی نے تو انتخابات میں حصّہ ہی نہیں لِیا؟۔ اب جنابِ آصف زرداری کے سیاسی عمل کو بھلا کون سازش کہنے کی جرأت کرے گا؟۔ 

معزز قارئین!۔ پاکستان میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والے اب بھی بہت سے ہیں لیکن، وہ حیران ہیں کہ اُن کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری جس ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا منتخب چیئرمین ہے اور اُن کے بابا ساؔئیں ۔ شریک چیئرپرسن وہ پارٹی ہے کہاں ؟ ۔ بہرحال مجھے اور میرے لاکھوں ساتھیوں کو تو بہت دُکھ ہوا ہے کہ ’’اسلام آباد کو سازشوں کا شہر کیوں کہا گیا ہے ؟‘‘۔