اسلام آباد(خبر نگار) عدالت عظمٰی نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کو کالعدم کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو ہاؤسنگ منصوبہ جزوی طور پر جاری رکھنے کی اجازت دیدی۔جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے روڈا کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرکے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے ۔عدالت نے حکمنامے میں قرار دیا جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی ہوچکی ان پر کام جاری رکھا جا سکتا ہے تاہم منصوبے میں شامل جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی نہیں ہوئی وہاں کام نہیں ہو سکتا،اس قانونی نکتے کا جائزہ لیں گے کہ زیر غور مقدمے میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل بنتی ہے یا نہیں، اگر انٹراکورٹ اپیل بنتی ہو تو پھر کیس ہائی کورٹ بھجوا دینگے ۔پیر کو سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کچھ قانونی سوالات اٹھائے لیکن ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سمیت صوبائی حکومت کی قانونی ٹیم عدالت کے اٹھائے گئے سوالات کا مناسب جواب نہیں دے سکی جس پر عدالت نے پنجاب حکومت کی قانونی ٹیم کی سرزنش کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ہائیکورٹ کے فیصلے میں غلطی کیا ہے ،ایڈووکیٹ جنرل صاحب بتائیں آپ کا کیس کیا ہے ۔مناسب جواب نہ ملنے پر فاضل جج نے کہاآپ لوگوں کو یہ بھی علم نہیں کہ کیس ہے کیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے لگتا ہے ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ بغیر تیاری آئے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا جس کیس میں فیصلہ دیا گیا پنجاب حکومت اس میں فریق ہی نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہامجموعی طور پر 18 درخواستیں تھیں ایک میں فریق نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا، پنجاب حکومت نے اپنا موقف ہائیکورٹ میں پیش کیا تھا، تکنیکی نکات میں نہ جائیں ٹھوس بات کریں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہادرخواستیں ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی عوامی سماعت کے خلاف تھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ریکارڈ کے مطابق منصوبے کیلئے زمینوں کا حصول بھی چیلنج کیا گیا، صوبائی حکومت کے وکلاء عدالت میں غلط بیانی نہ کریں،اس دوران حکومتی وکلاء کی ٹیم کے کچھ اراکین نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے کان میں کچھ سرگوشیاں کی تو عدالت نے برہمی کا اظہار کیا ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کیس کی تیاری اپنے چیمبر میں کیا کریں،ہر دو منٹ بعد آپکے کان میں کوئی نہ کوئی سرگوشی کر رہا ہوتا ہے ،آپ لوگوں کو خود ہی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیس آخر ہے کیا اور دلائل کیا دینے ہیں۔روڈا کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں روڈا آرڈیننس کوتفویض کردہ اختیار قرار دیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں امریکی آئین کا حوالہ دیا ہے ،امریکی اور پاکستانی حالات اور آئین مختلف ہیں۔روڈا کے وکیل کا کہنا تھا ہائیکورٹ میں درخواست گزار ہائوسنگ سوسائٹیز تھیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا ہائوسنگ سوسائٹیز کا تو مفادات کا ٹکرائو واضح ہے ،عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد آرڈر جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہائیکورٹ میں پنجاب حکومت کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا کہ ہائی کورٹ اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی لیکن ہائی کورٹ نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے روڈا کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرلیں۔آرڈر میں کہا گیا کہ عدالت نے سوال اٹھایا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی جس کے جواب میں پنجاب حکومت نے موقف اپنایا کہ زیر غور معاملے میں ریلیف کا فورم سپریم کورٹ ہے ۔عدالت تمام سوالات کا بغور جائزہ لیں گی اور دیکھا جائے گا کہ اس مقدمے میں انٹراکورٹ اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی۔عدالت نے مقدمے کے تمام فریقین کو ایک ماہ میں اضافی دستاویزات جمع کرا نے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ۔