اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے حکومت کے 10ارب درخت لگانے کے منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے 10بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا ۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منگل کو دریاؤں اور نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے بلین ٹری منصوبہ کے تحت درخت لگانے کے حوالے سے سوالات اٹھائے ۔عدالت نے آئندہ سماعت پروفاقی سیکرٹری پلاننگ اورچاروں صوبوں کے سیکرٹریز جنگلات کو طلب کر لیا جبکہ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ملک بھر میں موجود مجسٹریٹس کے ذریعے درخت لگنے کی تصدیق کر ائینگے ۔عدالت نے ہدایت کی کہ آگاہ کیا جائے کہ منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے اور کتنے درخت کہاں لگے ۔ عدالت نے فنڈز خرچ ہونے کا جواز بمعہ ریکارڈ پیش کرنے اورلگائے درختوں کی تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کرنے کا حکم دیا جبکہ وزارت موسمیاتی تبدیلی سے سٹیلائٹ تصاویر بھی منگوا لیں۔دوران سماعت عدالت نے کلرکہار کے اطراف میں پہاڑوں پر تعمیرات کا بھی نوٹس لیا اور ہر قسم کی کمرشل سرگرمیوں کو روکنے کا حکم دیا ۔عدالت نے ہدایت کی کہ پنجاب حکومت کلر کہار کے پہاڑوں پر درخت لگائے ۔ چیف جسٹس نے ریما رکس ددیئے کہ دس ارب درخت لگنا ناقابل فہم بات ہے ،اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی۔سماعت کے موقع پر عدالت نے ماحول کے تحفظ اور شجرکاری سے متعلق ،وفاق ،پنجاب ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جبکہ سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ جمع نہ کرانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا ۔سیکرٹری ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ ایک سال میں 430 ملین درخت لگائے جاچکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے 430 ملین درخت لگے دیکھے ہیں؟۔سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ اتنے درخت دیکھنا ممکن نہیں جس پر عدالت نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کی سرزنش بھی کی ۔قبل ازیں نہروں کے کنارے درخت لگانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت کے حکم عدولی پر متعلقہ افسران کو توہین عدالت کو نوٹس جاری کریں گے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت کے معاملات سمجھ سے بالاتر ہیں ،سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات کچھ اور ہی طرح چلتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سندھ میں جو بھی فنڈز جاتے ہیں چوس لئے جاتے ہیں محکمہ جنگلات حکومت سندھ کے حکام نے بتایا کہ سندھ میں 50 لاکھ درخت لگائے گئے ۔عدالت نے حکام کو نہروں اور دریائوں کے اطراف درخت لگانے کی ہدایت کی ۔عدالت نے بلین ٹری سونامی منصوبے کے بارے سوالات اٹھائے تو سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی نے کہا کہ پراجیکٹ کے تحت درخت لگانا صوبوں کا کام ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ بڑی مغرور ہے ،وفاقی دارالحکومت میں5 لاکھ درخت کہاں لگائے ہیں؟ آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہوں گے ، اسلام آباد میں درخت کٹ رہے ہیں، کشمیر ہائی وے پر ٹیڑھے میڑے درخت لگے ہیں جوخوبصورتی کے بجائے بدصورتی پیدا کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکرٹری ماحولیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کا محکمہ ماحولیات چور اور آپ اس کے سربراہ ہیں، آپ کو تو سیدھا جیل بھیج دینا چاہیے ، ناران کاغان کچرا بن چکا، جھیل کے اطراف کوئی درخت نہیں، کمراٹ میں ہزاروں درخت کاٹے جا رہے ہیں جومیں خود دیکھ کر آیا ہوں، نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے ہیں اور پشاور میں تو موجود ہی نہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نہروں، دریاؤں کے اطراف 78 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں ۔ سیکرٹری آبپاشی پنجاب نے کہا کہ صوبے میں 25 ہزار میل رقبے پر درخت لگائے گئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 25 ہزار میل کینال روڈ کے ایریا میں 3 لاکھ درخت کچھ بھی نہیں۔ بلوچستان کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا بلوچستان میں بلین ٹری سونامی کا وجود ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے اصل میں نظر نہیں آتا۔عدالت نے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔