اسلام آباد (خصوصی نیوز رپورٹر، نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے جعلی ٹی ٹی، ملازمین کے نام پر جعلی فرنٹ کمپنیوں اور اعلیٰ عہدوں پر فرنٹ مین تعینات کر کے ایک منظم طریقے سے کالا دھن اپنے خاندان کے بینک کھاتوں میں منتقل کرایا، قومی احتساب بیورو (نیب) اور دیگر ادارے انکی منظم منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہے ہیں جس کیلئے شہباز شریف کو جوابدہ ہونا پڑیگا، قوم شہباز شریف سے پوچھے گئے 18سوالوں کے جواب کی منتظر ہے ۔ اپنے ایک ٹویٹ میں شہزاد اکبر نے مزیدکہا کہ دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کا راگ الاپنے والے صرف اس سوال کا ہی جواب دیدیں کہ کیا آپ نے اپنے فرنٹ مین نثار گل کو وزیراعلیٰ دفتر کا نہ صرف ڈائریکٹر نہیں لگایا بلکہ خلاف ضابطہ بیک ڈیٹ میں تقرر نہیں کیا اور ترقی بھی نہیں دی؟، شہباز شریف جو قوم کو دھیلے کی کرپشن کی داستان سناتے تھے ، وہ یہی بتا دیں کہ کیا انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا؟ اس حوالے سے جواب دیں ورنہ یہ ثبوت بھی منظر عام پر ہو گا۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے فرنٹ مین نثار گل کے حوالے سے یہ الزامات ان کے دورہ اقتدار میں بھی سامنے آتے رہے ہیں اور اس حوالے سے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کالے دھن کا گورکھ دھندا وزیراعلیٰ ہاؤس میں بیٹھ کر چلا رہے تھے اور عوام کو معصومیت سے کہتے رہے کہ ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ ، جعلی ٹی ٹی اور فرنٹ کمپنیوں کا انکشاف ایک حقائق نامے میں بھی سامنے آیا ہے ۔ اس حقائق نامے کے مطابق شہباز شریف خاندان کیخلاف بذریعہ جعلی ٹی ٹی بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کرنے کی تحقیقات قومی احتساب بیورو لاہور کی طرف سے بھی جاری ہیں۔ تحقیقات کے مطابق شہباز شریف خاندان کی جائیداد میں 2008ئکے بعد ہوش ربا اضافے کے انکشافات سامنے آئے ۔ 2008ئسے 2013ئکے دوران 202 جعلی ٹی ٹی کے ذریعے 1.57ارب روپے شہباز شریف خاندان کے افراد کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کئے گئے ۔ جن افراد کے ذاتی اکاؤنٹ میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لندن اور دبئی سے بھاری رقوم منتقل ہوئیں ان میں حمزہ شہباز، سلمان شہباز، بیگم نصرت شہباز، علی عمران، بیگم رابعہ عمران اور بیگم جویریہ علی شامل ہیں۔ فرنٹ مین محمد مشتاق چینی والا(360ملین روپے (، ملازم کے نام پر ایک کمپنی، وقار ٹریڈنگ کمپنی (140ملین روپے )کے اکاؤنٹ میں بھی بیرون ملک سے جعلی ٹی ٹی کے ذریعے رقوم منگوائی گئیں جو بعدازاں شہبازخاندان کے کاروبار میں منتقل کر دی گئیں۔ جن لوگوں کے نام پر جعلی ٹی ٹی لگوائی گئیں ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو انتہائی غریب ہیں اور وہ کبھی بیرون ملک گئے اور نہ ہی انکا کبھی پاسپورٹ بنا جن میں منظور احمد پاپڑ والا ساکن پنڈ دادنخان، محبوب احمد پھیری والا ساکن لاہور، قدیر احمد کڑھائی والا ساکن لاہور وغیرہ شامل ہیں۔ جعلی ٹی ٹی کی دولت سے شہباز خاندان نے جائیدادیں خریدیں جن میں 96ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع شہباز شریف کا گھر (جو بیگم نصرت شہباز کے نام ہے ) سرفہرست ہے ۔ علاوہ ازیں رقم کو شہباز شریف نے نئے کاروبار قائم کرنے کیلئے ابتدائی سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا۔ کالے دھند سے جو کاروبار کئے اور ان میں سرمایہ کاری کی گئی ان میں چنیوٹ پاور لمیٹیڈ، شریف فیڈ ملز، شریف ڈیری فارمز، شریف پولٹری فارمز اور شریف ملک پراڈکٹس وغیرہ شامل ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نہ صرف منی لانڈرنگ سے حاصل دولت سے کاروبار قائم کئے گئے بلکہ انکی ترقی اور ترویج کیلئے اندرون ملک منی لانڈرنگ کا ایک باقاعدہ نظام بنایا گیا۔ تحقیقات کے دوران 6فرنٹ کمپنیوں کا انکشاف ہوا جو محض کاغذی تھیں، انکا حقیقت میں کوئی کاروبار نہیں یہ جعلی کاروباری کھاتے بنا کر کک بیک اور کمیشن کی رقوم شہباز شریف کے درج بالا ظاہر شدہ کاروبار میں منتقل کرتی تھیں، ان فرنٹ کمپنیوں میں گڈ نیچر ٹریڈنگ کمپنی(جی این سی)، یونی ٹاسک لمیٹیڈ، نثار ٹریڈنگ کمپنی (راشد کرامت اکاؤنٹنٹ کے نام پر)، وقار ٹریڈنگ کمپنی، سید محمد طاہر نقوی (منیجر کے نام پر)، مقصود اینڈ کمپنی (ملک مقصود چپڑاسی کے نام پر) اور مشاق اینڈ کمپنی (مشتاق چینی والا، فرنٹ مین کے نام پر) شامل ہیں۔ گڈ نیچر ٹریڈنگ کمپنی اور یونی ٹاسک لمیٹیڈ کے ڈائریکٹرز/مالکان نثار احمد گل سکنہ ننکانہ اور علی احمد خان سکنہ قصور ہیں۔ نثار گل ان فرنٹ کمپنیوں کا سی ای او بھی ہے جسے نیب نے گرفتار کر لیا ہے ۔ نثار گل نے ابتدائی تحقیقات کے دوران بتایا کہ وہ اور علی احمد سلمان شہباز شریف کے گورنمنٹ کالج لاہور میں کلاس فیلو تھے جہاں سے انکی دوستی سلمان شہباز سے ہوئی اور بعدازاں شہباز خاندان سے قربت میں اضافہ ہوا۔ اسی تعلق کی وجہ سے 2009ئمیں پنجاب میں شہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب حکومت قائم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کے دفتر واقع 8کلب روڈ لاہور میں نثار احمد گل کو ڈائریکٹر برائے وزیراعلیٰ (پولیٹیکل) اور علی احمد کو ڈائریکٹر برائے وزیراعلیٰ (پالیسی) تعینات کیا گیا۔ 2013ئمیں نگران حکومت قائم ہونے کے بعد دونوں کو سیاسی بنیاد پر بھرتی کی وجہ سے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا تاہم دوبارہ شہباز شریف کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان کو انہی عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ اکتوبر 2015ئمیں کمپنی قائم کرنے کے بعد تین بینک اکاؤنٹس بنائے گئے ، خالی چیک بک دستخط کر کے شریف گروپ کے اکاؤنٹنٹ محمد عثمان کے حوالے کر دی، یہ اس کیلئے بھی انکشاف ہے کہ گڈنیچر ٹریڈنگ کمپنی کے اکاؤنٹ میں شہباز خاندان کے اوپر ظاہر شدہ کاروبار سے تقریباً 7ارب روپے منتقل کیا گیا اور بعدازاں ان رقوم کو کھاتوں میں سیل پرچیز وغیرہ ظاہر کر کے واپس انہی کاروبار میں منتقل کر دیا گیا۔ جی این سی کے اکاؤنٹس سے 2.1ارب روپے کیش کی صورت میں نکلوایا گیا جس میں سے 1.2ارب روپے شہباز خاندان کے انتہائی قابل اعتماد کیش افسرمسرور انور اور شعیب قمر نے نکلوایا، ان کو بھی گرفتار کیا جا چکا ، انکی تحقیقات سے منی لانڈرنگ کے مربوط نظام کا انکشاف ہوا کہ کک بیک اور کمیشن کی رقوم شہباز شریف کی رہائش گاہ واقع ہاؤس 96ماڈل ٹاؤن میں سلمان شہباز خود وصول کرتے تھے ، یہ رقوم اپنے قابل اعتماد دوست اور فرنٹ مین سید محمد طاہر نقوی کے ذریعے شریف گروپ کے ہیڈآفس واقع کے 55ماڈل ٹاؤن لاہور کی کیش برانچ میں پہنچا اورفضل داد عباسی کے حوالے کر دیتے تھے ۔ وزیراعلیٰ کے گھر سے رقوم کی منتقلی کیلئے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی بلٹ پروف لینڈ کروزر استعمال ہوتی تھی۔ شریف گروپ ہیڈ آفس میں منتقلی کے بعد ان رقوم کو سلمان شہباز یا اکاؤنٹنٹ عثمان کی ہدایات کے مطابق مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیا جاتا تھا۔ کھاتوں میں یہ ظاہر کیا جاتا کہ یہ رقوم مختلف کاروباری لین دین مثلاً چینی، دودھ، فیڈ کی فروخت کی مد میں وصول ہوئی ہیں۔ رقوم کولاہور سے مختلف منی چینجرز کے ذریعے ہنڈی حوالہ کے تحت بیرون ملک منتقل بھی کیا جاتا تھا۔ ان رقوم سے پاؤنڈز، ڈالرز اور دیگر فارن کرنسی بھی خریدی جاتی تھی۔ رقوم کو بیرون ملک ٹی ٹی کے ذریعے یا اپنے فرنٹ مین ملازمین کے ذریعے واپس منگوا لیا جاتا اور اس کو سفید دھن کی صورت میں خاندان کے مقامی ظاہر شدہ کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جاتا ۔ تحقیقات سے واضح ہوا کہ جی ایم سی کے کاغذی ڈائریکٹر نثار احمد گل اور علی احمد خان کے ذاتی اکاؤنٹ میں بھی بیرون ملک سے 172ملین روپے بذریعہ ٹی ٹی منگوائے گئے ۔ بعدازاں جی ایم سی کمپنی کے کھاتوں سے 350ملین روپے سرمایہ کاری کی غرض سے گلف شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے اور چند روز بعد کیش افسروں مسرور انور اور شعیب قمر نے اس رقم کو گلف شوگر ملز سے کیش کی صورت میں نکلوا کر شریف گروپ اکاؤنٹنٹ کے حوالے کر دیا ۔ ایک کمرشل بینک سے جی ایم سی کے لئے 900ملین روپے کا قرضہ حاصل کیا گیا، یہ اکاؤنٹنٹ محمد عثمان کے حوالے کیا۔ کمیشن اور رشوت ستانی سے حاصل رقوم کو مربوط طریقہ کار کے ذریعے کاغذی فرنٹ کمپنیوں کو استعمال کرتے ہوئے شہباز خاندان کے کاروبار میں سینکڑوں چھوٹی چھوٹی جعلی ترسیلات کے ذریعے ضم کر دیا گیا، یہی وجہ تھی کہ سلمان شہباز کی زیرنگرانی شہباز خاندان کے ذاتی کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے تھے ۔ شواہد کے مطابق شہباز اور حمزہ منی لانڈنگ کے ذریعے کالے دھن کو سفید کر کے مستفید ہو رہے تھے ۔ کیش افسر مسرور انور اور شعب قمر نہ صرف جی ایم سی سے رقوم نکواتے تھے بلکہ اکثر ان رقوم کو شہباز اور حمزہ کے ذاتی اکاؤنٹس میں بھی منتقل کرتے ۔ اپریل 2017ئمیں مسرور انور نے 16ملین روپے شہباز شریف کے نیو مسلم ٹاؤن، لاہور میں واقع نجی بینک اکاؤنٹ میں منتقل کئے ۔اس رقم سے تہمینہ درانی کیلئے مارگلہ پہاڑیوں میں سپرنگ پائن ریزارٹ میں ویلا نمبر19اور کاٹیج نمبر23خریدا گیا۔شعیب قمر نے اکتوبر 2016ئمیں حمزہ شہباز کے نیو مسلم ٹاؤن بینک میں 25ملین روپے جمع کرائے ۔ اس رقم سے کے بلاک جوہر ٹاؤن لاہور میں پلاٹ نمبر 61,61-Aاور 63اپنے نام پر خریدے ۔ نہ صرف سلمان شہباز منی لانڈرنگ کے اس نیٹ ورک کی براہ راست نگرانی کر رہا تھا بلکہ ان کو اپنے والد شہباز شریف کی آشیرباد اور مکمل سرپرستی حاصل تھی، نیب کو ان مٹ اور ناقابل تردید شواہد حاصل ہو چکے ہیں۔ نجی چینل سے گفتگو کے دوران شہزاد اکبر نے کہا کہ 2019ئسے شہباز شریف کہتے آ رہے ہیں کہ میں لندن آ رہا ہوں اور جا رہا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ انکی یہ گردان انہی قطری خطوط کی طرح ہیں جو ابھی تک نہیں پہنچے ۔ یہ الزامات نہیں ہیں بلکہ انکشافات ہیں جن پر آپ ہمیشہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جرم کہاں ہوا ؟ وزیراعلیٰ ہاؤس لاہور کے اند بیٹھ کر آپ اس گورکھ دھندے کو چلا رہے تھے اور کہتے تھے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ مجھے 6 مہینے سے دھمکیاں دے رہے تھے کہ لندن کی عدالتوں میں لیکر جائینگے ، لیکن ابھی تک میں اسکا بیتابی سے انتظار کر رہا ہوں کہ کب مجھے لندن بلاتے ہیں اور میں موصوف کے مقدمے کا سامنا کروں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب وہ لندن گئے ہونگے تو انکے وکلاء نے مشورہ دیا ہو گا کہ میاں صاحب رہنے دیں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔