مکرمی !یہودیوں کی شرانگیزیاں و تکبر اس حد تک بڑھ چکا تھا، کہ اقوام متحدہ کے قومی سلامتی کے حالیہ اجلاس میںاسرائیلی صدر کی طرف سے فلسطینی ریاست کے وجود سے ہی انکار کر دیاگیا۔ 6اکتوبر کو حماس کی جانب سے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل پر تین اطراف ( خشکی، فضاء اور سمندر) سے بیک وقت حملے نے پوری دنیا کو چونکا دیا ۔حماس کے’’ طوفان الاقصیٰ ‘‘ آپریشن نے یہودی ریاست کے ناقابل شکست ہونے کے طلسم کو ملیا میٹ کر دیا۔ صدیوں بعد افغانستان میں صلیبی تاریخ کے سب سے بڑے طاقتور صلیبی اتحادکی شرمناک و عبرتناک شکست نے دنیا بھر کے مجاہدین اسلام کو جلا بخشی ہے۔’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر صلیبی جنگ کے بعد‘‘ ۔ افغانستان میں ملنے والی فتح مبین کا اعجاز ہے کہ 28 سالوں بعد غزہ حدود پر لگی ہوئی صہیونی باڑ کو اپنے پائوں کے نیچے روندتے ہوئے مجاہدین کے قدم اسرائیل کے اندر جا پہنچے اور غزوہ پر اسرائیل کا قبضہ ختم کر دیا۔ دنیا بھر میں شاہد ہی کوئی ایسا مسلمان ہو گا جو انبیاء کے قاتلوں کی اس طرح ذلت و رسوائی پر خوش نہ ہو رہا ہو گا۔اسرائیل کی پسپائی نے بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیا ہے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر کے خطے میں کوئی ابلیسی منصوبہ تو نہیں بنا رہا ۔بہرحال آزادی کی قیمت تو چکانا پڑتی ہے ۔ جس کے دو راستے ہی ہیں کہ دشمن کے ہاتھوں بے بسی کی موت یا پھر دشمن کے گھر میں گھس کر اسے مارتے ہوئے مرو ۔ تاکہ اسے تمہاری مزاحمت کا خطرہ ہر وقت ستائے رکھے ۔ دشمن کے علاقوں میں ایسی جہادی یلغاروں کا جاری رہنا دنیا میں ظلم وستم و دہشت گردی کو روکنے کا سبب بھی ہے اور آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے لیے امید کی ایک کرن بھی ۔’’ کہ اب بہت ہو چکا‘‘۔ ( اویس نذیر،لاہور)