مکرمی!کسان ہمارے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو ملک میں اناج اگاتے ہیں اور بلا خوف و خطر بدلتے موسمی حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حکومت نے گندم کی قیمت میں 1800 روپے فی من مقرر کی ہے ۔ حکومتی وزیر اس اضافے کو مسترد کر چکے ہیں۔ ایک طرف پہلے ہی زرعی زمینوں کو بے دردی سے تباہ کیا جا رہاہے اور زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں جو کہ قابل مذمت ہے اور اس پر لاہور ہائی کورٹ نے بھی نوٹس لیا اور حکومت کو سختی سے گرین ایریاز کو ختم کرنے پر سخت قوانین مرتب کرنے کا حکم دیا ہے۔ فی الحال اس پر کوئی عمل ہوتا نظر نہیں آ رہااگر ہم نے زمینوں پر تعمیرات کو نہ روکا تو وہ دن دور نہیں جب ہم اناج درآمد کیا کریں گے ۔حالیہ دنوں جسکی مثال ملتان میں زرعی زمین پر آم کے باغات کاٹے جانا اور اس زمین کو تعمیرات کے لیے خریدا جانا کتنا افسوس ناک ہے۔ دوسری طرف جو زمین قابل کاشت ہے وہاں کسان دن رات محنت کرتا ہے اور ہر فصل پکنے پر اپنے دل میں بہت سارے خواب سجاتا ہے۔ ہمارا ملک تقریبا ستر فیصد زراعت پر منحصر کرتا ہے لیکن افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ ہم اتنے وسیع وعریض رقبے کے باوجود گندم اور کپاس کو دوسرے ملکوں سے برآمد کرتے ہیں۔ جسکی حالیہ مثال روس سے گندم کی درآ مدہے جو کہ 2000 فی من کے حساب سے کی گئی۔حکومتی اتحادی جماعتوں نے متعدد بار گندم کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے لیکن حکومت نے مطالبہ مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ اگر گندم کی قیمت بڑھائی گئی تو آٹے کی قیمت بھی بڑھے گی ۔ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے جہاں 2000 فی من کے حساب سے گندم درآمد کی گئی مگر افسوس کہ اپنے ملک کے کسان کو ہم مسلسل تکلیف پہنچا رہے ہیں ہمارے کسان کو بھی اسکا حق ملنا چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ گندم کی قیمت 2000 ہزار روپے فی من مقرر کرے۔ (عاصم غفور‘ لاہور)