پاکستان کی آزادی کی 76 ویں سالگرہ کا دن آیا اور بیت گیا۔حکومتی اور عوامی سطح پر بہت سے جشن منائے گئے۔ آتش بازی ہوئی۔ دھواں دار تقریریں ہوئیں۔پند و نصیحت کے انبار لگے۔ وہ جو لوٹ مار میں یکتا ہیں وہ بھی قربانیوں کی باتیں کرتے رہے۔ہم نے بھی آزادی کا جشن منایا۔ ایک خوشی تھی جس کا اظہار ہر شخص نے اپنے اپنے طریق سے کیا،ہمارے زیادہ نوجوان آزادی اپنے انداز میں مناتے رہے۔نوجوانوں نے شاید یہی جان رکھا ہے کہ آزادی کا مقصد قانون کا مذاق اڑانا اور سائیلنسر نکال کر موٹر سائیکل چلانا، جو خاندان بچیوں کو لے کر نکلتے ہیں ان سے چھیڑچھاڑ کرنا اور بس اسی کو آزادی جاننا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہم سارا سال اپنے بچوں کو آزادی ،اس کے معانی ، اس کا مقصد اور اس کے تقاضے سمیت کچھ نہیں بتاتے۔ وہ جب اپنی مرضی کا جشن مناتے ہیں تو ان کے اس جشن کو روکنے کی پوری سعی کرتے اور پولیس کو پکڑ دھکڑ کی کھلی آزادی دے دیتے ہیں، پولیس بھی اس دن بھرپور آزادی سے اپنے اختیارات استعمال کرتی ہے۔نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تعلیم جو انہیں وقت سے پہلے سکھانے کی ضرورت تھی ہم نہیں سکھاتے۔ ہم بے معنی سی تعلیم دیتے اور پھر کہتے ہیں کہ تعلیم تو ہم نے فراوانی سے مہیا کر دی ہے مگر تربیت نہیں دے سکے۔ ہمیں یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ جس میں مکمل تربیت نہ شامل ہو وہ تعلیم نہیں ہوتی فقط خواندگی ہوتی ہے۔ برصغیر پر انگریز تقریباً دوسو سال کسی نا کسی صورت حکمران رہے۔ 1839 میں رنجیت سنگھ کے بعد دس بارہ سال سکھ پنجاب پر حکمران رہے مگر ان کے بعد انگریز ہندستان پر مسلسل 89 برس بلا شرکت غیر پوری طرح حکمران رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یہ نو آبادیاتی نظام دم توڑنے لگا اور انگریز یہاں کی آزادی کی تحریکوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے لگے تو مسلمانوں کو دو مسئلے درپیش تھے۔ ایک انگریز سے آزادی اور دوسرا وہ نہیں چاہتے تھے کہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکیں۔ انگریز اس خطے کو آزادی دے کر اگر جاتے تو برصغیر کے مسلمان یہاں کی اکثریت ہندوئوں کے زیر اثر آنا قبول نہیں کر سکتے تھے جو کہ ہندوئوں کی اکثریت کے سبب بڑا فطری تھا۔چنانچہ مسلمانوں نے دوہری جنگ لڑی، ایک انگریزوں سے آزادی کی جنگ اور دوسرا ہندوئوں کی ممکنہ قید سے نجات۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے نئے ملک پاکستان کے حصے میں آئیں گے اور ہندو اکثریت والے حصے ہندوئوں کے نئے ملک بھارت کے حصے میں آئیں گے۔اسی اصول کے تحت14 اور 15 اگست کی درمیانی رات لارڈ لوئیس مائونٹ بیٹن جو ہندستان کا آخری وائسرائے تھا ، نے برصغیر کی تقسیم کااعلان کیا اور یہ خطہ دو بڑے حصوں، ہندوئوں کے بھارت اور مسلمانوں کے پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔14 اور 15 کی درمیانی رات کا پہلا پہر پاکستان کے حصے آیا اور یوں 14 اگست پاکستان کا جنم دن اور دوسرا پہر بھارت کے حصے آنے کے نتیجے میں15 اگست بھارت کا جنم دن قرار پایا۔ چونکہ آزادی کا اعلان یک لخت ہوا اس لئے بھارت میں بیٹھے مسلمانوں اور پاکستان میں موجود ہندوئوں اور سکھوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس آزادی کے نتیجے میں ڈیڑھ دو کروڑ لوگ گھر سے بے گھر ہوئے۔تقریباً 20 لاکھ لوگ مارے گئے۔ 80 ہزار عورتوں نے اپنی عصمت گنوائی۔اس دور کی داستانیں اس قدر ہولناک ہیں کہ آج بھی انہیں یاد کرکے متاثرین خون کے آنسو روتے ہیں۔میں نے اپنے بزرگوں سے ایسی بہت سی باتیں سنی تھیں اور لگتا تھا کہ سب شاید یک طرفہ تھا مگر بھارت جا کر پتہ چلا کہ دونوں طرف ظلم اور بربریت کی داستانیں ایک جیسی ہیں ۔ کسی نے کچھ کم نہیں کیا۔ ایک سکھ نے وہاں ایک خوبصورت بات کی ،’’بھائی برے ادھر بھی ہیں، برے ادھر بھی ہیں۔ چند لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر سے انسانیت رخصت ہو جاتی ہے۔ ان لوگوں کا کوئی دین اور دھرم نہیں ہوتا، وہ اور ان کا رویہ سب کے لئے باعث شرم ہوتے ہیں، ساری کربناک داستانیں انہی لوگوں کے حوالے سے ہیں ‘‘۔ ایک تاریخی بات جو کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حکومتی اختیارات دو طرح کے ہوتے ہیں،ایک آئینی اور دوسرے انتظامی۔14 اور15 کی درمیانی رات جو آزادی لارڈ مائونٹ بیٹن نے نئی حکومتوں کو دی ،وہ انتظامی آزادی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح بطور گورنر جنرل تاج برطانیہ کے نمائندے تھے اور آئینی طور پر ہم تاج برطانیہ کے تحت تھے۔ہم برطانوی آئین کے مطابق حکومت چلا رہے تھے۔ اس وقت برطانیہ میں جارج VI کی حکومت تھے۔اس لئے آئینی طور پر جارج VI ہمارا آئینی سربراہ تھا۔ 6 فروری 1952 کو جارجVI کی وفات کے بعد ملکہ الزبتھ اقتدار میں آئیں اور وہ پاکستان کی دوسری آئینی سربراہ تھیں۔ 23 مارچ1956 کو پاکستان نے اپنا آئین اس ملک میں نافذ کر دیا اور یوں ملک نے آئینی طور پر بھی مکمل آزادی حاصل کر لی۔سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر اور آئینی سربراہ تھے۔ یوں 14 اگست 1947 کو پاکستان انتظامی طور پر آزاد ہوا تھا جب کہ مکمل آزادی 23 مارچ 1956 کو حاصل ہوئی۔ پاکستان کی آزادی کا مقصد مسلمانوں کااپنے نظریات اور اپنے افکار کے مطابق ایک ایسی زندگی بسر کرنا تھا جو کسی بھی بیرونی پابندی سے آزاد ہو۔ جہاں ہم معاشی طور پر اپنے خود ذمہ دار ہوں۔ ہر طرح کے استحصال سے پاک معاشرے میں زندگی بسر کریں۔ ہم ذہنی، فکری، معاشی اور ہر لحاظ سے اپنے نظریات کے تابع ہوں۔ ہمارا تعلیمی نظام ہماری فکر کا آئینہ دار ہو۔ لیکن افسوس کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ہم اپنے مقصد ہی کو واضح نہیں کر پائے۔ اصل خرابی ہمارے نظام تعلیم میں ہے جو ابھی تک ہم اپنی روایات اور نہ ہی اپنی توقعات کے مطابق استوار کر پائے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ جب ہمارا نظام تعلیم صحیح خطوط پر استوار ہو گا، ہمارا ملک صحیح ڈگر پر آ جائے گا۔