پہلے تو پاکستانی عوام یہ تسلیم کرلیں کہ ان کی قسمت میں کوئی دیانت دار اور انٹیگریٹی کا حامل حکمران نہیں ہے ۔اور وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری قسمت میں کوئی دیانت دار حکمران کیوں نہیں وہ بس اپنے گریبان میں جھانک لیں ۔۔ جیسی عوام ہوگی ویسے ہی حکمران نصیب میں ہوں گے۔حدیث پاک میں منافق کی چار نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ جس میں ایک بھی نشانی ہو گی وہ منافق ہے اور ہم پاکستانیوں میں ان میں سے ایک نا ایک علامت ضرور موجود ہے۔ایمزون نے اس برس کی ہزار پاکستانیوں کے اکاؤنٹ اس لیے معطل کر دئیے کہ وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے یہ سب وہ سرٹیفائیڈ بدیانت پاکستانی ہیں جو اپنا حکمران صادق اور امین چاہتے ہیں۔بیرون ملک سے ملنے والے تحائف سرکاری طور پر ایک محکمہ میں جمع کرا دیئے جاتے جسے توشہ خانہ کہا جاتا ہے۔تیس ہزار سے کم مالیت کے تحائف حکمران اپنے پاس رکھ سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ مالیت کے تحائف کی پچاس فیصد قیمت ادا کر کے انہیں اپنی ملکیت بنا سکتے ہیں۔ بیرون ملک سے ملنے والے بیش قیمت تحائف حقیقت میں پاکستانی عوام کو دیے جاتے ہیں اور خزانے میں ان کو جمع کرایا جاتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی ان پر رال ٹپکنا فطری بات ہے جن کا خمیر ہی مزید کی ہوس اور مفاد پرستی سے اٹھایا گیا ہے۔ اگر یہ اتنے ہی دیانت دار ہوتے تو پاکستان کا حال یہ نہ ہوتا۔توشہ خانہ کی گنگا میں زرداری گیلانی نواز سبھی نے ہاتھ دھوئے لیکن دکھ یہ ہے کہ ہمارے اخلاقیات پر درس دینے والے لیڈر نے بھی وہی کیا جو اگلے کرتے رہے۔ خان کے خلاف سخت فیصلے کی توقع اس لیے بھی تھی کہ عمران خان خود تسلیم کرچکے تھے کہ انھوں نے سرکاری توشہ خانہ کو ملنے والی بیش قیمت گھڑیاں بیس تیس فیصد میں بیچ کر رقم اپنی جیب میں ڈالی خریدوفروخت سے ان کو جو غیر متوقع آمدنی ہوئی وہ انہوں نے 2018۔ 2019 میں الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے اثاثوں کی تفصیل میں نہیں بتایا۔جس سے وہ واضح طور وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے نااہلی کا حکم دیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔عمران خان ایک کراوڈ پلر ہیں اور اپنے فالورز کو چارج رکھنا جانتے ہیں جب سے وہ اقتدار سے باہر آئے تھے انھوں نے اپنے فالورز کو چارج رکھا ہوا۔تسلسل کے جلسے کیے اگرچہ ہر جلسے میں وہی باتیں دہرائیں مگر یہ عمران خان ہی کا خاصہ ہے کہ ان کے پاس کہنے کو اگرچہ نئی بات نہیں وہ پرانی باتیں اس شدت کے ساتھ ہاتھ لہراتے ہیںکہ ان کے سننے والوں کو ان کی باتوں کا یقین آ جاتا ہے۔ عمران خان اپنے فالورز کے دماغوں میں یہ بات راسخ کرچکے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں وہ سچ ہے ۔وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ حق ہے۔ وہ کسی اخلاقیات کسی قانون کے پابند نہیں ہیں۔اگر وہ اپنے کہے ہوئے الفاظ کی سڑک سے کسی اور سمت کو نکل جائیں گے، تو اسے جھوٹ نہیں سے سیاسی یو ٹرن کہتے ہیں۔وہ تیرگی جو دوسروں کے نامہء اعمال کو تاریک کرتی ہے وہی تیرگی ان کی زلف کا حسن کہلاتی ہے اور ان کے کہے اور کیے پر ۔کوئی قد غن نہیں لگ سکتی کوئی قانون کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا ہو گا۔مسلسل سپون فیڈنگ سے یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو خان صاحب نے اپنے فالورز کا بنایا۔پورے پاکستان میں پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنوں نے لوگوں کو سڑکوں پر ذلیل و خوار کیا۔دفتروں سے واپس گھر آنے والے پاکستانی مرد اور خواتین گھنٹوں اضطراب کی حالت میں سڑکوں پر اپنی سواریوں میں بیٹھے راستے کھلنے کا انتظار کرتے رہے۔کتنے۔مریض ایسے تھے جو فوری طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں جانے کے لیے سڑکوں پر تکلیف سے گزرتے ریے۔ پرائم ٹائم کے سیاسی ٹاک شوز میں ان مسائل پر بات نہیں ہوئی کیونکہ عام پاکستانی کے مسائل پرائم ٹائم کے سیاسی ٹاک شوز کا موضوع نہیں بنتے۔ یہ کار گزاریاں کراچی ہوا کرتی تھیں کہ بھائی لوگوں کے کہنے پر کراچی بند ہو جاتا جھتے سڑکوں پر نکل آتے اپنی اپنی ورک پلیس پر گئے لوگوں میں اضطراب پھیل جاتا کہ گھر کیسے لوٹیں گے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے دنوں میں عوام ذلیل و خوار ہو تے ہیں عدالت کا کوئی ورڈکٹ اس پہ آنا چاہیے کہ کس حد تک کوئی سیاسی جماعت احتجاج کرسکتی ہے سڑکوں پہ دھرنے دینا راستے بند کرنا عوام کی زندگیوں کو اجیرن کرنے کے مترادف ہے پھر احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کا ریاستی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والا ٹکراؤ صرف نقصان ہی نقصان کا باعث بنتا ہے۔مانتے ہیں خان صاحب کہ آپ کی مقبولیت پر اثر نہیں پڑا اور آپ مقبول ترین لیڈر ہیں دن بدن مقبول ہوتے جائیں گے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ اخلاقیات کے جس میں سنگھا سن پر بیٹھ کر اپنے ہم عصر سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو کہتے تھے اب اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔اور شاید مزید پڑتی رہیں گی۔ طاقت کے اصل ایوان کٹ ڈاؤن ٹو سائز کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔آپ نے اس قوم کو اخلاقیات کے سبق پڑھائے ، آپ نے اس قوم کو جگایا کہ تم ان طاقتور سیاستدانوں سے ان کی کرپشن کا حساب لو۔ان کے اثاثوں کے بارے سوال کرو لیکن آپ نے اس سارے اخلاقی بھاشن میں اپنی ذات کو ہمیشہ منہا کردیا کیونکہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی قانونی اور اخلاقی اقدار اور سماجی روایات کے پابند نہیں ایسے نہیں ہوتا ہے۔ خان صاحب۔ کیونکہ آپ ہی اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ کے طاقتور کوئی جرم کرتا تو وہ سزا سے بچ جاتا جبکہ سے کمزور کو سزا ملتی تھی آپ ہی اپنی تقریروں میں ریاست مدینہ کے انصاف اور عدل کے حوالے دیا کرتے تھے۔یہ وقتی نااہلی چند دنوں میں ریورس ہونے کے امکانات ہیں خان صاحب کا بگڑا تو کچھ نہیں ،مقبولیت پر بھی اثر نہیں پڑا مگر اس اخلاقی سنگھا سن پر کریک پڑ گئے ہیں جس پر خان صاحب کھڑے ہو کر پوری قوم کو اخلاقیات کا درس دیتے تھے۔