27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے ایک بڑے حصے ( مقبوضہ کشمیر ) پر قبضہ کرنے پر پاکستان ، برطانیہ ، امریکہ ، سعود ی عرب اور دُبئی سمیت کئی ملکوں میں کشمیریوں اور پاکستانیوں نے (پرسوں )27 اکتوبر کو ’’یوم سیاہ ‘‘ منایا۔ ہر سال منایا جاتا ہے لیکن غاصب ؔملک بھارت اور کشمیریوں کو اُن کا حق خود ارادیت دِلوانے کی ذمہ دار اقوام متحدہ کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے حکمرانوں کی بھی کمزوری رہی ہے لیکن جب بھی پاکستان کی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے جارحیت کا ارتکاب کِیا جاتا ہے تو پاکستان کی مسلح افواج اُن کو مُنہ توڑ جواب دیتی ہیں۔ معزز قارئین!۔ اِس بار27 اکتوبر کو پاکستان میں دو اہم واقعات ہُوئے۔ ایک یہ کہ ’’ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پاکستانی نیوز چینلز پر بھارتی سمیت دیگر غیر ملکی مواد ؔ دِکھانے کے معاملے پرسماعت کے دَوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ جب بھارت ہمارا کوئی "Dame"بند کرا رہا ہے توہم اُس کے چینلز بھی کیوں نہ بندکردیں!‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے "P.E.M.R.A" کی جانب سے جولائی 2017ء میں بھارتی مواد پر پابندی کا اعلامیہ جاری کِیا تولاہور ہائیکورٹ نے اُسے کالعدم قرار دے دِیا تھا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دے دِیا ۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں پیمرا کے چیئرمین پروفیسر محمد سلیم بیگ نے پیمرا کے افسروں اور سٹاف سے خطاب کرتے ہُوئے اُنہیں ہدایت کی کہ ’’ وہ سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل کریں اور کسی صورت میں بھی بھارتی چینلز کے غیر قانونی مواد کو پاکستانی نیوزی چینلز پر نشر نہ ہونے دیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ عربی زبان کے لفظ موادؔ کے معنی ہیں ۔ اسباب ، مسالا ، سامان (جیسے تاریخ کا مواد ) لیکن اردو زبان میں موادؔ ۔ پِیپ ، زخم کی رطوبت اور غلاظت کو بھی کہتے ہیں ۔بعض اوقات توبھارتی نیوز چینلز پر ڈراموں ، فلموں اور دوسرے ثقافتی پروگراموں کی آڑ میں ( خبروں اور تبصروں کی صورت میں ) ایسا مواد ؔ ہوتا ہے جسے غلاظت ہی کہنا چاہیے ؟۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازع ۔ مسئلہ کشمیر حل ہونا ضروری تھا / ہے لیکن ہمیں بھارت سے کبھی خیر کی اُمید نہیں رہی اور نہ ہے ‘‘۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو مسئلہ کشمیر ؔکے "Champion" کہلاتے تھے لیکن 20 دسمبر 1971ء سے 4 جولائی 1977ء تک وہ اقتدار میں رہے اور اُن کے بعد دو بار اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کئی سال تک لیکن 9 ستمبر 2008ء کو صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی ’’دامادِ بھٹو ‘‘آصف علی زرداری نے خُود کلامی ؔکرتے ہُوئے کہاتھا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" ( منجمد ) کردیں؟ ‘‘۔ اپنے اِس مقصد ؔ کے حصول کے لئے اُنہوں نے تحریک پاکستان کے مخالفین ( کانگریسی مولویوں کی باقیات ) امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین منتخب کردِیا اور اُن کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی ۔ فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے دونوں محسنوں کا حقؔ ادا کردِیا ۔ معزز قارئین!۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں بھارت اور پاکستان میں اُس کے چاہنے والوں نے ’’ سُر کشیترا‘‘ (Sur Kshetra) کے نام سے پاکستان اور بھارت میں ’’ سروں کامیدان جنگ ‘‘سجایا۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’مہا بھارت ‘‘ کے مطابق ہزاروں سال پہلے بھارت کے موجودہ صوبہ ہریانہ ؔ کے ضلع ’’ کورو کشیترا‘‘ ( کوروئوں کے میدان میں ) ایک ہی دادا کی اولاد "Cousins" میں جنگ عظیم ہُوئی جِس میں کورو ہار گئے تھے اور پانڈوئوں کو فتح حاصل ہُوئی تھی۔’’ سُر کشیترا‘‘ کو دونوں ملکوں میں ’’ امن کی آشا‘‘ ( امن کی امید) کا نام دِیا گیا ۔ میاں خورشید محمود قصوری 23 نومبر2002ء سے 15نومبر 2007ء تک صدر پرویز مشرف کے دَور میں وزیر خارجہ رہے اور اُنہوں نے ’’ امن کی آشا‘‘ پروگرام کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کِیا۔ صدر پرویز مشرف کے دَور کے بعد بھی خورشید محمود قصوری 12اکتوبر 2015ء کو اپنی کتاب"Neither Hawk Nor Dove"۔ کی رسم رونمائی کے لئے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہروں کے نام سے منسوب بمبی کے "Nehru Centre" میں اُنہوں نے میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے بھارت کی نئی نسل سے اپنا تعارف کراتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ میرے دادا (مولوی عبداُلقادر قصوری ) "Indian National Congress" کی پنجاب شاخ کے صدر تھے ‘‘ ۔ قصوری صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ پاکستان اور بھارت کے معتبر افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں کو "Monitor" کرے !‘‘۔ افسوس کہ اِس طرح کی کمیٹی کبھی نہیں بن سکی؟۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف بھارت کے نو منتخب وزیراعظم شری نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے لئے دِلّی میں تھے جب 26 مئی کو اُنہوں نے ( معراج شریف کی رات ) مودی جی کے ساتھ گزاری ۔ دوسرے دِن میڈیا پر خبر آئی کہ ’’ بھارتی وزیراعظم نے پاکستانی وزیراعظم کو "Man of th Peace" ( مردِ امن ) کا خطاب دِیاہے ‘‘ ۔ پھر مودی جی نے وزیراعظم پاکستان کی والدۂ صاحبہ محترمہ شمیم اختر ۔ المعروف ’’ آپی جی ‘‘ کو شال کا تحفہ بھجوایا اور بعد ازاں وزیراعظم پاکستان نے مودی جی کی ماتا جی کے لئے سفید ساڑھی کا تحفہ۔ 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی سالگرہ ( اور خود اپنی سالگرہ پر ) وزیراعظم نواز شریف کی نواسی (مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسمِ حنا کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے لائو لشکر سمیت جاتی اُمرا میں پہنچے تو وزیراعظم نواز شریف نے اُنہیں اپنی والدۂ محترمہ ، بھائی میاں شہباز شریف اور دونوں بیٹیوں حسن نواز اور حسین نواز سے بھی ملوایا۔ آپی جی ؔ نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’ مل کر رہو گے تو خُوش رہو گے‘‘۔ مودی جی نے بھی سعادت مندی سے کہا کہ ’’ ماتا جی !۔ ہم اکٹھے ہی ہیں ۔ معزز قارئین!۔ میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019ء کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ وہ جس انداز میں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے قوم کی خدمت کر رہے ہیں وہ بے مثال ہے لیکن وہ اُن لوگوں کے دِلوں سے بھارت کی محبت کیسے نکالیں گے جن کی رگوںمیں بھارت سے محبت خون بن کر دوڑ رہی ہے ؟۔ اسرائیل کا طیارہ 27 اکتوبر کو ایک اسرائیلی صحافی "Avi Scharf" کے ٹویٹ کی بنیاد پر ’’ بی ۔ بی ۔ سی‘‘ کے حوالے سے ایک خبر کو "scandal" بنا کر پاکستان کے کئی نیوز چینلز پر حزب اختلاف کے احسن اقبال اور فضل اُلرحمن صاحبان کے علاوہ کئی دوسروں کے بیانات چسکے لے لے کر بلکہ سوادؔ لے لے کر نشر کئے گئے اور یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ’’ خُدا نخواستہ وزیراعظم عمران خان کے اسرائیلی وزیراعظم "Benjamin Netanyahu" سے خفیہ تعلقات ہونے والے ہیں ‘‘۔ اِس طرح کی افواہوں سے تو امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) کو بھی فائدہ نہیں ہوسکتا کہ ’’ عمران خان جب سے سیاست میں آئے ہیں فضل صاحب اُنہیں یہودیوں کا ایجنٹ کہہ کر چھیڑتے ہیں اور ’’جواب آں غزل ‘‘ کے طور پر عمران خان بھی یہ کہتے ہیں کہ’’ بھلا فضل اُلرحمن صاحب کے ہوتے ہُوئے یہودیوں کو پاکستان میںکسی اور ایجنٹ کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ مجھے یاد آیا کہ ’’ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں پاکستان کے وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری اور اسرائیل کے وزیر خارجہ "Silvan Shalom" سے جمہوریہ تُرکیہ کے شہراستنبول میں باقاعدہ مذاکرات ہُوئے تھے ۔ اُن دِنوں میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی نظم کا ایک شعر تھا … تَل اِبیب ، اسلام آباد ، اذکار اِستنبول میں! چل گیا دونوں کا ، کاروبار ، اِستنبول میں ! مجھے نہیں معلوم کہ اگر وہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا واقعی فلسطین کے عوام کو کچھ فائدہ ہوسکتا تھا ؟۔ وزیر خارجہ تو جناب شاہ محمود قریشی ہیں۔ وہ جانیں اور اُن کا کام ؟۔ ’’مَیں کون ؟ خوامخوا!‘‘