مکرمی ! پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی (KP-PSRA) حکومت خیبر پختونخوا کی طرف سے تمام نجی سکولوں میں پشتو اور علاقائی زبانوں کے نفاذ کے حوالے سے جاری کردہ حالیہ نوٹیفکیشن لسانی تنوع کے تحفظ اور فروغ کی جانب ایک اہم اور قابل تعریف قدم ہے۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔پرائیویٹ سکولوں میں پشتو اور دیگر علاقائی زبانوں کے نفاذ کے فیصلے کی جڑیں صوبائی کابینہ کی 30 جنوری 2012ء کی قرارداد اور اس کے بعد رٹ پٹیشن نمبر 142-پی/2021 مورخہ 15 جون 2023 میں پشاور ہائی کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔عدالتی فیصلے اور تعلیمی پالیسی کے مضمرات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں ثقافتی شناخت کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں میں پشتو اور علاقائی زبانوں کو لازمی مضامین کے طور پر نافذ کرنے سے خیبر پختونخوا کی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ خیبرپختونخوا کے لسانی ورثے کو پہچاننے اور اس کے تحفظ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اور عدالت عالیہ پشاور کا حکم نامہ علاقائی زبانوں کے فروع کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ چترال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ دنیا کا واحد کثیرالسانی خطہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی کل تعداد پشتو، کھوار اور فارسی کو ملا کر چودہ بنتی ہے۔ زبان کسی بھی ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہے، اور یہ اقدام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آنے والی نسلوں کا اپنی لسانی اور ثقافتی جڑوں سے مضبوط تعلق برقرار رہے گا۔یہ فیصلہ لسانی تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب میں مادری زبانوں کی شمولیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔حکومت اور عدلیہ دونوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پشتو اور علاقائی زبانیں خطے کی شناخت کے لازمی اجزا ہیں اور ان تک تمام زبانیں بولنے والے طلبا و طالبات کے لیے قابل رسائی ہونا چاہیے، خواہ ان زبانوں کے سماجی و اقتصادی پس منظر کچھ بھی ہوں ساری زبانوں کو ان کا برابر حق دیا جائے اور جامعاتی سطح پر اردو اور پشتو کی طرح ان علاقائی زبانوں میں بھی بی ایس سے لے کر پی ایچ ڈی لیول تک تحقیقی مقالات لکھوائے جائیں۔ (ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی)