تجزیہ:سید انور محمود آج سے ایک ماہ بعد،دو عشرے قبل، وہ واقعہ ہوا جسے دنیا بھر میں نائن الیون کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ 11ستمبر 2001 کو نیویارک کے جڑواں ٹاورز پر طیاروں سے حملہ کیا گیا، جن کے ملبے تلے بیگناہ افراد کی لاشوں کے علاوہ امریکی دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور بھی دفن ہو گیا۔ میں نے سی این این پر یہ حملہ لائیو نشریات میں دیکھا، پہلے خیال آیا کہ شاید یہ کوئی فلمی سٹنٹ ہے اور جب دوسرا طیارہ ٹاور سے ٹکرایا تو میں بے یقینی کی حالت میں کھڑا ہو گیا۔میرا فی البدیہہ ردعمل یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جائیگا اور پاکستان کو بھی۔تو اگلا فوری قدم کیا ہوگا؟ اس وقت بطور وفاقی سیکرٹری اطلاعات میں نے وزیر خارجہ انعام الحق کو ٹیلیفون کیا جنہوں نے بغیر وقت ضائع کئے تفصیلی سرکاری بیان تیار کیا جس میں حملے کی پرزور مذمت اور انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان کی بھرپور مدد کا اعادہ کیا گیا۔ بیان کا مسودہ صدر مشرف کو فیکس کر دیا گیا جو اس وقت کراچی کے دورے پر تھے ۔ میں نے ان کے ملٹری سیکرٹری کو ٹیلیفون کیا اور صدر کی جانب سے فوری منظوری کی درخواست کی تاکہ دنیا کی واحد سپرپاور پر ہوئے اس غیرمتوقع حملے پر پاکستان کا ردعمل بلاتاخیر دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے ۔چند منٹ بعد یہ بیان نشر کیا جا رہا تھا۔ اس طرح امریکہ کی افغانستان میں دخل اندازی کا دوسرا باب شروع ہوا۔ پہلا باب افغانستان سے سوویت فوج کو نکال باہر کرنے کیلئے جنرل ضیائالحق کے پاکستان کیساتھ تعاون سے شروع ہوا تھا۔ اس غیرروایتی طویل تمہید اور تعارف کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا تھا کہ امریکی تو افغان سرزمین سے اپنا آخری سامان لے کر روانہ ہونے کو ہیں لیکن پاکستان کی تکلیف دہ اور طویل مشقت ختم نہیں ہو رہی، یہ صرف اپنی صورت اور ہیت تبدیل کر رہی ہے ۔افغان شہری چار دہائیوں سے تشدد اور افراتفری کا شکار رہے ہیں، پاکستان بھی یہ کچھ جھیل رہا ہے ۔ایک لمحے میں امریکہ نے پاکستان کو اپنا اتحادی قرار دے کر تعریف کی اور دوسرے لمحے اسے افغانستان میں ہونیوالے ہر معاملے کا ذمہ دار قرار دیدیا۔ یہ اس خطے میں امریکی پالیسیوں کا اتارچڑھاؤ رہا ہے ۔سوویت یونین کے جانے کے بعد اس نے افغانوں کو ان کی قسمت پر چھوڑ دیا اور اس کے نتیجے میں دنیا نے وہاں بدترین قتل و غارت گری اور تباہی کا مشاہدہ کیا۔ اور اس کے بعد اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہاں طالبان کو کنٹرول کرے ۔ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کا جواب بہت کم ملا۔ اور پھر نائن الیون ہو گیا اور دنیا تبدیل ہو گئی۔ جنرل مشرف نے امریکہ کو پاکستان کی بھرپور مدد کی پیشکش کی اور فوراً ہی نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری مغربی دنیا میں ہمیں سراہا جانے لگا۔ آج، بیس سال بعد، پھر الزام بازی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ بیس سال کی موجودگی اور اطلاعات کے مطابق 20کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود کابل میں قومی اتفاق رائے کی حکومت بنانے میں ناکامی کے بعد امریکہ اور اس کی موجودہ قیادت مایوسی کے عالم میں کوئی قربانی کا بکرا ڈھونڈ رہی ہے ۔ سب سے نزدیک اور آسان قربانی کا بکرا پاکستان ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان اس وقت کچھ زیادہ نہیں کر سکتا۔جو تھوڑا بہت اثرورسوخ وہ طالبان پر ڈال سکتا تھا وہ بھی صدر جوبائیڈن کے انتہائی عجلت میں فوجی انخلا کے اعلان کے بعد ختم ہو گیا۔مذاکرات اور سودے بازی کیلئے کوئی چیز نہیں ہے اور طالبان افغان فوج کی عجلت میں کی گئی تربیت اور شیرازہ بندی کی کمزوری کو جانتے ہیں۔ اب دنیا یہ سب برا ہوتے دیکھ رہی ہے کیونکہ امریکہ پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ کافی اقدامات نہیں کر رہا۔ امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ کابل تین مہینے سے بھی پہلے طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے ، اسے اس بات سے بھی یقیناً آگاہ ہونا چاہیے ایسے میں جب امریکہ اپنا سامان باندھ رہا ہے تو پاکستان کا افغان طالبان پر کتنا اثرورسوخ ہو سکتا ہے ۔جب شیر یا ٹائیگر اپنے شکار کو دیکھتا یا محسوس کرتا ہے تو پھر وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا، بس اپنے سر کو سامنے کی جانب ہی رکھتا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان اسی بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ فتح سامنے دیکھ کر اب طالبان نہیں سن رہے ۔لہٰذا پاکستان پر الزام لگانے سے امریکہ کے اندرونی سیاسی مفادات تو پورے ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس خطے میں امن کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ نائن الیون کے بیس سال بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے ۔ روسیوں کو شاید غیرموثر کیا جا چکا ہے لیکن ایک نیا چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے اور طاقت کا ایک نیا توازن تیزی سے ابھر رہا ہے ۔ پاکستان کو ٹھنڈے دماغ سے کھیلنا ہوگا اور دنیا کو واضح اور بلند آہنگ سے اپنا موقف بتانا ہوگا۔دنیا کوبتانا ہوگا کہ اس کا امن اور ترقی افغانستان میں امن و استحکام کیساتھ بری طرح سے جڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے مغرب میں افراتفری اور انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پھر بھی یہ اس کی ذمہ داری نہیں لے سکتا جو اس کی سرحدوں سے پرے ہو رہا ہے ۔یہ بتانے کیلئے ہر فورم اور ہر وسائل کا استعمال کیا جائے ۔ تجزیہ،انور محمود