لاہور(انور حسین سمرائ) پنجاب حکومت نے پانی کی ملکی ضروریات پورا کرنے کیلئے نئی واٹر پالیسی جاری کی ہے جس میں کالا باغ ڈیم اوربھاشا ڈیم سمیت انڈس بیسن پرمختلف ڈیمز تعمیر کرنے ، پوٹھوہار اور ڈیرہ غازی خان میں میں چھوٹے ڈیم بنانے اورپانی کے محفوظ استعمال کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا ہے ۔ نئی واٹر پالیسی کے تحت پانی کے مسائل پر اہم فیصلے کرنے کیلئے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں 10ارکان پر مشتمل پنجاب واٹر کونسل بنانے کی تجویز بھی دی گئی ہے ۔نئی واٹر پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں پانی کی کمی کا سامنا ہے ۔ فیلکن مارک واٹر انڈکس کے مطابق ہر فرد کو سالانہ 1000کیوبک میٹر پانی استعمال کیلئے میسر ہونا لازم ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 861کیوبک میٹر اور پنجاب میں 770 کیوبک میٹر ہے جبکہ صوبے میں کل میسر پانی ( سرفیس پلس گرائونڈ ) 75 ملین ایکڑفٹ ہے ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے پنجاب میں کل 14ملین ہیکٹر زیر کاشت زمین میں سے 6.2 ملین ہیکڑ زرعی زمین کو زمینی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس میں کیمیکل کی مقدار 2ہزار ٹی ڈی ایس سے زائد ہے ۔ پاکستان میں زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار بھارت سے بھی کم ہے جس کی بنیادی وجہ نہری پانی کی عدم دستیابی اور بلا استعمال پانی کا سمندر میں جانا ہے جبکہ وجوہات میں دریا چناب پر انڈیا کی طرف سے ڈیمز کی تعمیر اورملک میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اختلاف بھی شامل ہیں۔ زمینی سطح پر انڈس سسٹم میں کل پانی 147 ملین ایکڑفٹ ہے جس میں سے 106ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں کے ذریع زمین کو کاشتکاری کیلئے سیراب کرتا ہے جبکہ 30ملین ایکڑ فٹ پانی بلا استعمال سالانہ سمندر کی نذر ہوجاتا ہے ۔ کل پانی میں سے ارسا کے معاہدے کے مطابق پنجاب کو 55.94 ملین ایکڑ فٹ پانی میسر ہوتا ہے جبکہ سیلاب کے پانی سے صوبے کو 37فیصد پانی بھی میسر ہوتا ہے ۔ نیسپاک کی رپورٹ کے مطابق 2.71 ملین ایکڑفٹ پانی کوہ سیلمان رینج سے میسر آتا ہے جس سے سیپٹ اری گیشن سسٹم کے تحت ڈیمز بنا کر ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے اضلاع کو کھیتی باڑی کیلئے پانی فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ نئی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں زیر زمین پانی کی مقدار 43 ملین ایکڑز فٹ ہے جس میں 60فیصد زون میں قابل استعمال تازہ پانی ہے جبکہ باقی علاقوں میں کھارا پانی ہے جس کو زراعت کیلئے استعمال کرنا ممکن نہیں۔ صوبے میں 50فیصد زراعت کی ضروریات پورا کرنے کیلئے زمین سے میٹھا پانی نکالا جاتا ہے جس سے سالانہ تقریباً 45ملین ایکڑ فٹ پانی نکالا جاتا ہے جو زائد اخراج کے زمرے میں آتا ہے ۔ نئی واٹر پالیسی کے مطابق موجود ہ وقت میں 3.06 ملین ایکڑ فٹ پانی ڈومیسک ضروریات پورا کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے جو بڑھ کر 2025 تک 3.6ملین ایکڑ فٹ ہوجائیگا۔ زراعت کیلئے اس وقت پانی کا استعمال 95.3ملین ایکڑ فٹ ہے جو 2025میں بڑھ کر 112.3ملین ایکڑ فٹ ہوجائیگا۔ انڈسٹری اور کمرشل سیکٹر میں پانی کا استعمال 1.5ملین ایکڑ فٹ ہے جو 2025میں بڑھ کر 2.44 ملین ایکڑ فٹ ہوجائیگا۔ نئی واٹرپالیسی میں مستقبل کی ضروریات پورا کرنے کیلئے پانی کے بہتر استعمال میں ٹیکنالوجی کے استعمال، بھاشا ڈیم، کالاباغ ڈیم سمیت کوہ سیلمان اور پوٹھو ہار رینج میں چھوٹے ڈیمز بنانے کی سفارش کی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں نئی پالیسی میں آبادی پر کنٹرول، پانی محفوظ کرنے کے جدید طریقے استعمال کرنے ، زراعت میں لیزر لیولنگ، فورو بیڈ اری گیشن، پانی کی مقدار کو بڑھانے کیلئے کارپوریٹ فارمنگ ، اجناس کے ہیرپھیر، اور واٹر انفراسٹرکیچر پر سرمایہ کاری کرکے پانی کو بچایا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں پنجاب واٹر کونسل کے مینڈیٹ میں نئی واٹر پالیسی پر عملدرآمد، نئی قانون سازی، پالیسوں اور حکمت عملی بنانے کیلئے سفارشات دینا شامل ہے ۔ کونسل کے علاوہ نئی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے چیئرمین منصوبہ بندی و ترقاتی بورڈ کی سربراہی میں پنجاب واٹر پالیسی عملدرآمد کمیٹی بھی بنانے کی تجویز ہے ۔