مکرمی ! اساتذہ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے افراد کی موجو دگی سے اچھا معاشرہ جنم لیتا ہے اور اچھے معاشرے سے ہی ایک بہترین قوم بنتی ہے۔ یہ استاد کا وصف ہے کہ وہ مقدس فرض کی تکمیل سے نوعِ بشر کی بہتر مستقبل گری کرتا ہے۔ تعمیر ِانسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کسی کوانکار نہیں۔ ابتدائے آفرینش سے استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔ اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی بنیادی ذمہ داری تلاوتِ آیات، تربیت اور تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم بیان کی ہے۔خود رسالت مآبﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر سے مالا مال کردیا۔موجودہ دور کے تعلیمی منظر نامے اور نئے رجحانات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ تعلیم کے بنیادی ذرائع (قلم، کتاب، بلیک بورڈ )میں پروجیکٹر،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اورسمارٹ فون بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بات ہر زمانے میں محسوس کی گئی کہ استاد کے روبرو علم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبا زمانے کی ترقیات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور استاد اور شاگرد کے درمیان ترقی کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اساتذہ نے جس دور کی تعلیم حاصل کی تھی طلبا کو اس سے آگے کی تعلیم دینا پڑتی ہے۔ آج طلبا تیز رفتار دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سمارٹ فون اور کمپیوٹر چلانا جانتے ہیں۔ آج بچے گوگل اور یوٹیوب پر بیٹھ کر کسی بھی قسم کا پراجیکٹ کیسے کیا جائے دیکھ لیتے ہیں اور انکی مناسب رہبری ہو تو وہ بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے آج کے بدلتے تعلیمی منظر نامے میںضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ عصر حاضر کے تکنیکی اور سماجی تقاضوں اور آئے روز متعارف ہونیوالے نئے رجحانات سے واقف ہوں اور ان سے ہم آہنگ ہوکر ایک مثالی استاد بن سکیں۔ (مالک خان سیال)