مکرمی! پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حزبِ اختلاف نے کینسر کے مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی اور سانحہ چونیاں پر شدید احتجاج کیا اور ایوان میں ہنگامہ ہوا، پیپلزپارٹی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ حسن مرتضیٰ نے الزام لگایا کہ ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ سے اب تک کینسر کے چار مریض جاں بحق ہو چکے ہیں، سپیکر پرویز الٰہی کے استفسار پر صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے ادویات نہیں روکیں، ادویات سپلائی کرنے والی کمپنی کا معاہدہ ختم ہو گیا تھا، اب نیا معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ کینسر سے متاثرہ مریضوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور کہا تھا کہ ان کو ہسپتال سے مفت ادویات فراہم ہوتی تھیں جو اب بند کر دی گئی ہیں۔اگر ادویات نہ ملیں تو وہ زندہ کیسے رہیں گے۔ سپیکر پرویزالٰہی جب خود پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈوں کو ایمرجنسی ہسپتال کا درجہ دے کر مفت علاج معہ ادویات رواج دیا تھا یہ سلسلہ ان کے بعد بھی جاری رہا،جس میں اب رکاوٹ آ رہی ہے۔ کینسر کے مرض کے لئے بازار میں دستیاب ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ عام آدمی تو کجا کھاتے پیتے لوگ بھی برداشت نہیں کر پاتے۔نئے قانون کے تحت تو مفت علاج بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے ہو گا۔افسوس تو یہ ہے کہ وزیر صحت لاعلم نکلیں اور ان کو پتہ نہیں تھا کہ ادویات ختم ہو چکیں وہ خود ڈاکٹر ہیں، ان کو علم ہے کہ دوا کے بغیر مریض کا کیا حال ہوگا۔اگر معاہدہ ختم ہوا تو بروقت اندازہ کر کے اس کی تجدید کرنا اور ادویات کی فراہمی معطل ہونے سے بچانا بھی تو محکمے اور حکومت ہی کا کام ہے۔اب ہنگامی طور پر ادویات کی فراہمی اور غفلت کی تحقیق ہونا چاہئے۔ (جمشیدعالم صدیقی لاہور)