اک فلسفہ ہے تیغ کا، اور اک سکوت کا باقی جو ہے، وہ تار ہے بَس عنکبوت کا دو چار انسانوں کی ذمے داری سر پر ہو، تو کتنی جگر کاوی کرنا پڑتی ہے! آفرین ہے ان کو، جو لاکھوں کروڑوں افراد کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھاتے ہیں! اگر واقعی اٹھایا جائے، تو کتنا وزنی ہے یہ بار! اس کا شمہ بھر احساس، اچھے بچھے آدمی کو بیمار کر ڈالے، وقت سے پہلے بوڑھا کر دے! بڑے بڑے شیر افگنوں کی نبضیں چھْوٹ جائیں! اپنے ہی نامہء اعمال کا حساب، بوجھوں مارنے کو کافی ہے۔ اس پر، ان گنت لوگوں کی راہبری، گویا ان کے بھی عذاب و صواب میں حصے دار بننا! پناہ بخدا! یہ بھی طے ہے کہ عوام میں ہر دلعزیز ہونے کا لپکا، اکثر ہَوکا بن جاتا ہے۔ یہ خواہش، بغلی دشمن سے کم نہیں ہے! پھر ان لیڈران ِکرام کو، کم از کم دو زندگیاں گزارنا پڑتی ہیں۔ تفصیل میں کیا پڑیے، حافظ صدیوں پہلے کہہ گئے ہیں واعظان کین جلوہ بر محراب و مِنبر می کنند چون بخلوت می رَوَند، آن کار ِدیگر می کنند یہ سَانگ، یہ ڈراما، پِھر لیڈری ختم ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک سے بڑھ کر ایک اداکار، آتا ہے، پہلے داد اور پھر بے داد پا کر رْخصت ہی ہوتا ہے۔ عوام کے دل کی کَلی، البتہ نہیں کھِلتی! انہی میں اکثر، ایسے بہروپیے بھی وارد ہوتے ہیں، جو دِل پرچانے کے ساتھ ساتھ، دماغ کو بھی متاثر کر دیتے ہیں! یہ وقتی اْبال، اور زیادہ خطرناک نکلتا ہے! ایسے ہی ایک فراڈ، موہن داس کرم چند گاندھی تھے۔ آدمی سْرتے اور نہایت کایاں تھے۔ ان کے کرتبوں نے، بہت سے معقول لوگوں کی بھی بْدّھی گم کر دی! جان گئے تھے کہ مسلمانوں کی تلواریں زنگ آلود ہو چکی ہیں۔ ایسے میں ایک بالکل برعکس فلسفہ، عدم ِتشدد کا پیش کر دیا۔ اس فلسفہ ء اہنسا نے، اچھے اچھوں کو چکرا دیا۔ ہر مذہب، ہر جماعت کے لوگ ٹْوٹ ٹْوٹ کر ان سے آ مِلے۔ مقامی سطح پر، کہنا چاہیے کہ ہر ایک کو انہوں نے، اْلجھا لیا۔ برطانوی وزیر ِاعظم چرچل، تھا تو سفاک اور بے رحم آدمی، لیکن اس کی مردْم شناسی کی داد دینا پڑتی ہے۔ گاندھی سے پہلی ملاقات میں ہی، وہ مہاتما کے باطن تک کو جھانک گیا! اْس کی نپی تْلی راے تھی کہ یہ شخص فراڈ بھی ہے اور نہایت شریر بھی! خباثتوں کی اس پوٹ کو، سب سے پہلے اکبر الٰہ آبادی، اور سب سے زیادہ اچھوتوں کے لیڈر ڈاکٹر امبیدکر نے بے نقاب کیا۔ دونوں جانتے تھے کہ یہ ساری شعبدے بازیاں، سرکار دربار میں مقبول ہونے کی غرض سے کی جا رہی ہیں۔ گاندھی اور انگریز انتظامیہ کے مابین، اس لاگ لپٹ پر اکبر نے کہا تھا۔ شب ِوصال میں گاندھی کا وعظ، آفت ہے یہ حْکم ہے کہ نہ بڑھیے مساس کی حد سے بظاہر چانٹا چٹول، بقول ِاکبر، دراصل شب ِوصال کی ہاتھا پائی تھی۔ ورنہ انگریزوں کے رْعب اور خوف سے، گاندھی کی روح فنا ہوتی تھی۔ عدم ِتشدد کو ذہن میں رکھتے ہوئے، چنگیز خان وغیرہ کی ہلاکت خیزیوں کو چھوڑیے، صرف انگریزوں کی تباہ کاریاں یاد کر لیجیے۔ پھر بتائیے کہ اہنسا کا فلسفہ کیسا نخالص ہے! لسان العصر کی زبان، حقیقت ترجمان بھی ہے۔ یہاں ذرا توقف کر کے، جو شعر سرنامہ ہے اس کالم کا "اک فلسفہ ہے تیغ کا۔۔۔ اِلَخ" وہ دْہرا لیجیے۔ آگے ایک اقتباس، شیخ عبدالشکور کی کتاب "سبزہ ء بیگانہ" سے پیش کیا جا رہا ہے۔ عبارت، تاکہ آپ تک بے کم و کاست پہنچ جائے، اسے راوی کی زبان سے سنیے۔ "پیرس پہنچنے پر اس(افغان فرمانروا امان اللہ) کی بے حد آئو بھگت ہوئی۔ پریزیڈینٹ پْوانکارے مع دیگر وزراء کے استقبال کے لیے سٹیشن پر موجود تھے اور دنیا بر کے فوٹوگرافر معزز مہمانوں کی تصویریں مختلف زاویوں سے اتارتے رہے۔ امان اللہ تین دن تو پیرس میں شاہی مہمان بن کر رہے اور انہیں نپولین کے بستر پر بھی سونے کا اعزاز ملا۔ یہ سب سے بڑی عزت تھی جو کہ فرانسیسی قوم اپنے کسی معزز مہمان کو دے سکتی ہے! بعدہْ یہ مہمان فرانس کے مختلف شہروں کی سیر کرتے رہے اور ہر بڑے شہر کے لارڈ میئر نے انہیں اپنے شہر کی آزادی کی سند اور چابی پیش کی۔ جب فرانس کا دورہ ختم ہوا تو ایک انگریزی جہاز کے ذریعے ان کو انگلستان پہنچایا گیا۔ جس وقت سپیشل ٹرین واٹرلْو کے سٹیشن پر پہنچی تو استقبال کے لیے کنگ جارج مع ملکہ مَیری و شہزادگان ِوالا تبار موجود تھے۔ گویا کہ ان کا استقبال اْسی تزک و احتشام سے کیا گیا جس طرح قیصر ِجرمنی اور زار روس کا ہوا کرتا تھا"۔ یہ واقعہ، جنگ ِعظیم اول کے معاً بعد کا ہے۔ ایک اجڑے پجڑے ملک کے بادشاہ کی اس بے مثال عزت افزائی کی لِم بھی سنیے۔ کچھ ہی عرصے پہلے، کوہاٹ کے قریب ٹل کے مقام پر افغان فوج نے برطانوی فوج کو شکست دی تھی۔ برطانویوں نے فوراً صلح کا ہاتھ بڑھا دیا۔ امان اللہ فاتح کی حیثیت سے یورپ میں داخل ہوے تو ان کی کیسی پذیرائی ہوئی، وہ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔ کسی حکمران، اور خصوصاً مسلمان حکمران کی ایسی پیشوائی، آج خواب و خیال کی بات ہے! یہ تمہید، جو بجاے خود مقدمہ ہے، اس لیے باندھی گئی کہ کاغذی اور ٹھوس فلسفے میں فرق کیا جا سکے۔ جس نظام نے اقوام ِعالم کو جکڑ رکھا ہے، اس میں جہاں کہیں کچھ آزادی نظر آتی ہے، وہ ذرا سی لچک اور جھول ہے اور بس۔ انسان اپنے شرف ِانسانیت سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ اور طْرفہ ظلم یہ ہے کہ یہ کام، انسانیت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ یہ اگر "ترقی" ہے، تو کہنا چاہیے کہع اب ہیں اچھے جانور، پہلے بْرے انسان تھے آج انسانوں کا سب سے بڑا محسن وہ ہو گا، جو اس نظام کو تلپٹ کر کے، دنیا کو انسانیت کی طرف پلٹائے۔ مغرب میں پیدا ہو یا مشرق میں، ہو گا وہ تیغ بدست ہی! بقول ِرومی ہر بنای ِکہنہ، کآباداں کنند اول آں بنیاد را ویراں کنند عوام کی آواز نہیں، ہمیں عوام کا راہبر درکار ہے۔ جو معمول نہیں، عامل ہو! اس لیے کہ ع ہست دنیا جاہل و جاہل پرست