پاکستان کلی طورپر ایک صارف ملک میں ڈھل چکا ہے۔ پیٹرول اور بجلی مہنگی ہونے سے چھوٹی صنعت کا پہیہ مکمل طور پر رْک چکا ہے۔ بڑی صنعت مشکلات کا شکار ہے۔کسی دور میں واپڈا ایک کماؤ پْت تھا۔یہ سرمایہ کما کر دیا کرتا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ اسلام آباد میں ’پاور ڈویثرن‘ قائم کیا گیا اور اْس ڈویثرن نے بجلی کا ایسا نظام گھمایا کہ واپڈا جیسا کماؤ پْت قرض دار ہوگیا۔ تیس سال قبل ہم نے اِمپورٹڈ فیول سے بجلی پیدا کرنا شروع کردی۔ درآمد شدہ تیل نے ہمیشہ مہنگا ہونا ہوتا ہے۔ جس کی بدولت ہماری توانائی،صنعت اور زراعت گہری کھائی میں جاگری۔ گزشتہ تیس سال سے ہم درآمد شدہ تیل پر توانائی سیکٹر چلا رہے ہیں۔ ایسا مْمکن ہی نہیں کہ ہمارا صنعتی سیکٹر درآمدی فیول پہ چل رہا ہو اور ہم زراعت کو خود کفیل کرلیں۔ اِس الیکشن کہ اِنتہائی مدھم گہما گہمی میں ایک سیاسی جماعت کے رہنمانے ایک سیاسی جلسہ میں اعلان فرمایا ہے کہ اگر اْن کی حکومت آگئی تو وہ ہر گھر کو تین سو یونٹ بجلی مفت مہیا کریں گے۔ اب کیا کریں کہ درحقیقت یہ نعرہ ہی درآمد شدہ ہے۔ پہلی بار اِس نعرے کی گونج بھارتی ریاست دہلی میں 2012میں سنائی دی۔ دہلی کے وزیراعلیٰ شری اَرند کیجری وال نے اپنی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کے پلیٹ فارم سے اِس نعرے کی صدا بلند کی تھی۔ 2013میں ستر ممبران کی اسمبلی میں اٹھائیس سیٹوں کے ساتھ وہ محض اْنچاس دن وزیراعلیٰ بنے۔ جب پارلیمنٹ سے بدعنوانی کے خلاف وہ بل منظور نہ کرواسکے تو اْنہوں نے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی تحلیل کردی۔ دوبارہ چناؤ ہوا۔ اِس بار عوام نے اْنہیں بھاری بہومت (اکثریت) سے اسمبلی میں بھیجا۔ اَرند کیجری وال دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور اْنہوں نے اپنے تمام وزیروں سے سرکاری گھر واپس لے لئے، سرکاری گاڑیاں لے لیں۔ وزیراعلیٰ کے لئے نئے ہیلی کاپٹر کی خریداری منسوخ کردی۔ بدلے میں اْنہوں نے پورے دہلی میں محلہ کلینکس قائم کردیے۔ ہسپتالوں پر بوجھ کم ہواتو ہسپتالوں کی حالت سدھرنے لگی۔ لوگوں کو گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات میسر ہونے لگیں۔ پرانے سرکاری سکولوں کی عمارات کی مرمت کرائی گئی۔ سکولوں میں بیس ہزار نئے کمرے بنوائے گئے۔ تعلیم پورے دہلی میں مفت کردی گئی۔ یوں ہر خاص و عام کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھنے لگے۔ ایک مرکزی کنٹرول روم بنوایاگیا۔ عوام کو ایک ٹال فری نمبر دیاگیاجسے ڈائل کرنے پر لوگوں کو اْن کی دہلیز پر راشن کارڈ ملنے لگا۔ گھر کی چوکھٹ پہ پولیس آکر ایف آئی آر درج کرتی۔ گھر کی دَرسال پہ شناختی کارڈ بنوانے کی سہولت ملنے لگی۔ دہلی کی تمام خواتین کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ مفت کردی گئی۔ ریاستی خزانے میں جو رقم باقی بچی وہ دو ہزار ماہوار کی بنیاد پر خواتین کے اکاؤنٹ میں جانے لگی۔ وزیراعلیٰ سمیت سبھی مَنتری (وزیر) پروٹوکول کے بِنا عوام کے پاس جانے لگے۔ ریاست اور عوام کے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ سبھی حیران تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ہے؟ اَرند کیجری وال نے ایسا ممکن کردکھایا۔ مگر نریندر دمودر دا س مودی سرکار نے عام آدمی سرکار پہ سنٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی انکوائری بٹھا دی۔ کیجری وال پر یہ الزام لگایاگیا کہ سرکاری خزانہ سے ایسا ممکن ہی نہ تھا اس لئے الزام ہے کہ کیجری وال سرکار نے اَنڈر دی ٹیبل عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیا ہوگا۔ انکوائری مکمل ہوئی مگر کچھ نہ ملا۔ بعد ازاں میڈیا ٹرائل کے ذریعے یہ الزام لگایا گیا کہ کیجری وال سرکاری خزانہ عوام میں بانٹ رہا ہے۔ جس پر انہوں نے ایک ٹیلی ویثرن شو میں وضاحت پیش کی کہ چونکہ سرکاری خزانہ عوام کے پیسوں سے بنتا ہے اس لئے اگر وہ عوام کو پیسہ لوٹارہے ہیں تو اِس میں پریشانی کاہے کی ہے؟ اب اِسی مثال کو پاکستان کے تناظر میں دیکھ لیں۔ہماری ہر سیاسی پارٹی کے ایجنڈے میں پروٹوکول کا خاتمہ شامل ہوتا ہے۔ کیا کبھی پروٹوکول کلچر ختم ہوا؟ غربت مکاؤ نعرہ لگایا جاتا ہے۔اقتدار عوام کے قدموں میں رکھنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ مفت گھر، مفت بجلی، مفت تعلیم، مفت انصاف اور مفت صحت جیسی سہولیات کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ نوکریاں دینے کے ببانگ ِ دہل نعرے لگائے جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہوا۔عوام کو ہر بار مایوسی ہوئی ہے۔ دراصل سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ عوام کو صرف سیاسی نعروں پہ رکھنا ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق ہمارے سرکاری اداروں میں تاحال مساوات کاکلچر فروغ نہیں پایا۔ سکول میں سترھویں گریڈ کے استاد کی تنخواہ مختلف ہے؛ جبکہ سیکرٹریٹ کے سترھویں گریڈ کے ملازم کی تنخواہ مختلف ہے۔ جامعہ میں اٹھارھویں گریڈ کی تنخواہ شاید پچاس اور ساٹھ ہزار کے درمیان ہے جبکہ عدالت میں اٹھارھویں گریڈ کی تنخواہ شاید دو لاکھ سے بھی زائد ہے۔ جامعہ میں اْنیسویں گریڈ کے افسر کی تنخواہ اور سہولیات شاید ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ہیں جبکہ اْنیسویں گریڈ کے ایڈیشنل سیکرٹری کی تنخواہ ومراعات شاید تین سے پانچ لاکھ کے درمیان ہیں۔ پوری سچائی تو یہی ہے کہ ہمارا نظام بگڑ چکا ہے۔ یہ انتہائی بوسید ہ نظام بن چکا ہے۔ بوسیدگی کا یہ عالم ہے آج 2024ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں کے نعرے چالیس سال پرانے ہیں۔ آزادی کوچھہتر سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ریاست چلانے والے عوام کو بنیادی انسانی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ غریب آج بھی تعلیم، صحت، انصاف خرید رہا ہے۔ یہاں ڈیپارٹمنٹ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے نہیں بنایا جاتا۔ بلکہ یہاں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے نئے محکمے بنائے جاتے ہیں۔ غریب اِس نظام ِ زَرکے نیچے دَب چکا ہے۔غریب سسک رہا ہے۔ بوسیدہ نظام کی کوکھ سے مصنوعی انقلاب کا نعرہ لگا کر عوام کو حقیقی انقلاب سے ڈرایا جاتا ہے۔اِس وقت وطن ِ عزیز کا غریب مہنگائی اور ظلم و زیادتی کی چکی میں پِس چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن سر پہ کھڑا ہے مگر عوام سیاسی نعروں کو پذیرائی نہیں دے رہے۔ سیاسی لیڈران گلہ پھاڑ پھاڑ کر خوشحالی کے نعرے لگا رہے ہیں مگرایسا لگتا ہے کہ عوام مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ عوام جان چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو ’مل جل کر کھانے‘ کی عادت ڈال دی گئی ہے۔ اب سب کھارہے ہیں۔ کچھ زیادہ کھارہے ہیں۔ کچھ کم کھارہے ہیں۔مگر سبھی کھارہے ہیں۔ خدا کیلئے ہوش کے ناخن لیں۔ یہ پچیس کروڑ عوام ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں نہیں ہیں۔ یہ اِ نسان ہیں۔ یہ سانس لیتے ہیں۔یہ کھانا کھاتے ہیں۔ یہ کپڑے پہنتے ہیں۔ اِن کی دھڑکنوں میں اِحساسات جنم لیتے ہیں۔ یہ سن سکتے ہیں۔ یہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بول سکتے ہیں۔ مگر اِنہیں بولنے نہیں دیا جارہا۔ اِن کو نہیں سنا جارہا۔ عوام جینا چاہتے ہیں۔ مگر اِن کو جینے نہیں دیا جارہا۔ ابھی وقت ہے۔ اِن کے سوکھے ہونٹوں پہ مسکراہٹ لائی جائے۔ اِن کے ماتھوں کو کشادہ کیا جائے۔ اِ ن کے چہروں پہ شادمانی لائی جائے۔ ابھی وقت ہے۔ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو اقتدار کی ڈور مقتدر حلقوں کے ہاتھ سے بھی نکل جائے گی۔ اور یوں لگتا ہے کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں۔