جون کے وسط کے دن بے تحاشہ گرم تھے ۔ تنور کی مانند دہکتے دنوں میں بس بارش کی تمنا تھی ۔26 جون صبح بیدار ہوئی تو بارش میں بھیگی ہوئی صبح تھی، اپنے لیے قہوہ تیار کیا اور باہر لان میں سر سبز پودوں کو بارش میں خوش ہوتے دیکھنے لگی۔ قہوے کے کپ سے دھواں اٹھ رہا تھا اور لیموں کی قا ش قہوے میں تیر رہی تھی۔ ایک مکمل خوبصورت لمحہ جسے میں نے اپنے فون کے کیمرے میں محفوظ کیا۔ اس لمحے کی خوشی کو تصویر کی صورت فیس بک پر لگا کر۔احباب کے ساتھ شیئر کیا۔ قہوے نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ کچھ برقی پیغامات میرے فون کے واٹس ایپ اور ان باکس میں آئے کہ یہ کس چیز سے بنا ہوا ہے۔ محترم مکرم ڈاکٹر معین نظامی نے اسی پوسٹ کے نیچے لکھا کہ اس جادوئی نباتاتی چائے کے خواص کے بارے میں بھی لکھیں۔یہ جادوئی نباتاتی چائے کی اصطلاح خوب تھی۔ہم جیسے نالائق تو ہربل ٹی جیسے لفظوں سے گزارا کرلیتے ہیں۔ڈاکٹر معین نظامی صاحب سے عرض کی کہ آپ کو تفصیل سے لکھ بھیجوں گی۔جب لکھنے لگی تو سوچا کہ کیوں نہ اس کو کالم کی صورت دی جائے تاکہ اخبار پڑھنے والے قارئین کو بھی فائدہ ہو۔ گھر کے باورچی خانے میں موجود سستی چیزوں سے صحت کے بیش بہا فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ موضوع متوقع کالموں کی فہرست میں کووڈ کے زمانے سے تھا ۔کئی زاویوں سے اس پر لکھا بھی تھا مگر تشنگی باقی رہی۔ کووڈ نے پہلی دفعہ یہ احساس دلایا تھا کہ ہمیں اپنے مدافعتی نظام کو بہتر کرنے کے لئے قدرتی چیزوں کی طرف واپس پلٹنے کی ضرورت ہے۔ صبح اٹھ کے خواہش تو اپنی روایتی چائے پینے کی ہوتی ہے کہ چائے کے ساتھ کچھ کتاب پڑھی جائے یا کچھ لکھا جائے لیکن پھر جب یہ احساس ہوا کہ نہار منہ چائے زیادہ عرصے کے لیے مسلسل پینا اچھا نہیں ہے۔ نیم گرم پانی میں شہد اور لیموں ڈال کے پینا صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔ یہ بھی پیتی ہوں اور کبھی مختلف قسم کے قہوے پیتی ہوں۔روایتی چائے کا موڈ ہو تو چائے بھی پی لیتی ہوں۔اس روز قہوے میں چار اجزاء شامل تھے، تازہ پودینے کی پتیاں، سنا مکی کے کچھ پتے ،سونف اور اجوائن ۔قہوے کو بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ سونف ،اجوائن اور پودینہ کو تین کپ پانی ڈال کر ابال آنے کے لیے رکھ دیں۔ پانی چند منٹ ابلتا رہے تو پھر اس میں سنا مکی کی پتیاں ڈال کر ایک دو بوائل آنے کے بعد ۔چولہے کی آنچ بند کر دیں اور کچھ دیر دم پر پڑا رہنے دیں۔ پھر دم شدہ قہوے کو چھان کر اس میں لیموں نچوڑیں اور تھوڑا سا شہد ڈال دیں اس سے دو کپ قہوہ تیار ہوتا ہے۔ میں یہ کرتی ہوں کہ لیموں کو دھو لیتی ہوں۔ پھر گرم قہوے میں اس کی قاش بھی ڈال دیتی ہوں ۔ اس سے قہوے کی خوشبو میں لیموں کی تروتازہ خوشبو شامل ہو جاتی ہے۔لیموں کے چھلکے میں قدرت نے ایسے اجزاء رکھے ہیں جوصحت کے لیے بہت اچھے ہیں۔ لیموں کی قاش گرم قہوے میں ڈال دینے سے وہ اجزاء کسی حد تک قہوے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ میں کچھ دوسرے اجزاء کو بھی ملا کر قہوہ بناتی رہتی ہوں۔ مثلاً میرے پسندیدہ قہوے کے اجزا یہ ہیں: دارچینی، ادرک میتھی دانہ ،الائچی، سونف، پودینہ،سبز الائچی، اجوائن، زیرہ ، نیاز بو یا تلسی کے پتے، لیمن گراس وغیرہ۔ اکثر روایتی گرین ٹی بھی بنا لیتے ہیں جسے پشاوری قہوہ کہتے ہیں۔ ادرک ،دارچینی اور میتھی دانے کے ساتھ بنا ہوا قہوہ میرے لیے فلو اورکھانسی میں بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔مختلف امتزاج کے ساتھ بنائے گئے قہوے ہماری مجموعی صحت کے لیے بہت اچھے ہیں۔میٹابلزم کی وجہ سے کم کھایا ہوا جسم کے اندر فیٹ کی صورت میں جمع ہو جاتا ہے اور موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔سنا مکی، اجوائن اور سونف کا قہوہ مٹابلزم کو تیز کرتا ہے۔ جن اجزاک کا میں نے ذکر کیا ان اجزاء کی ہربل ٹی پوری دنیا میں لوگ استعمال کرتے ہیں اور اپنی صحت کے لیے بے شمار فائدے حاصل کرتے ہیں۔میںاوپر بیان کی گئی تمام اشیا کے مختلف امتزاج سے اپنے موڈ اور ضرورت کے مطابق نباتاتی چائے تیار کرتی ہوں۔ سونف، اجوائن اور میتھی دانہ میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔کسی بھی قسم کی وائرل بیماری میں اس کا قہوہ فائدہ مند ہے۔ اگر آپ ذہنی دباؤ محسوس کر رہے ہیں تو اپنے موڈ کو اپ لفٹ کرنے کے لیے نیاز بو یا تلسی کے پتوں کا قہوہ بہت اچھا ہے۔ اس میں آپ الائچی اور سونف بھی ڈال سکتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے اندر اینٹی آکسیڈنٹ پائے جاتے ہیں۔یہ ہمارے جسم کے اندر فری ریڈیکلز کو ختم کرتے ہیں۔فری ریڈیکل جسم میں مختلف طرح کی چھوٹی بڑی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ پودینے اور سونف کے امتزاج سے تیار کیا ہوا قہوہ جلد کی رنگت کو صاف رکھتا ہے۔ ان میں خون کو صاف کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ تمام قہوے میٹابلزم کو تیز کرتے ہیں۔ اس سے نظام انہظام بہتر ہوتا ہے۔ سب اچھے غذائی اجزاء جسم کا حصہ بنتے ہیں اور جسم کے اندر چربی جمع نہیں ہوتی۔ان دنوں ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ایسی ہربل چائے کا رجحان اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کہ تازہ ترین تحقیق بتاتی ہے کہ یہ اپنے اندر اینٹی ایجنگ خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔میں کوئی حکیم ہوں نہ ڈاکٹر لیکن میں فطرت اور اس کے نظام کار پر ایمان رکھتی ہوں۔ اور میرا ایمان ہے کہ کیمیائی اجزا سے پاک ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بہت فائدے رکھے ہیں۔مجموعی طور پر یہ قہوے ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس کالم کا مقصد صرف اپنے تجربات مشاہدات کو پڑھنے والوں کے ساتھ بانٹنا تھا اس لیے اس قہوہ جاتی کالم کو ہرگز ترغیبی کالم نہ سمجھا جائے۔