محفل سے اٹھ نہ جائیں کہیں بے بسی کے ساتھ ہم سے نہ کوئی بات کرے بے رخی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ ہائے ہائے اخبار کی سرخی آنکھوں کو لال کر گئی کہ آئی ایم ایف معاہدوں میں مزیدسبسڈی کی گنجائش نہیں۔ ہائے ہائے اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ہم بے بس ہیں اپنے بازو رہن رکھ چکے ہیں یا اپنے ہاتھ پائوں کاٹ چکے ہیں۔ کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا۔ میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشا بنا دیا۔یہ شعر بھی برمحل ہے کہ مری آنکھ میں جو سما گیا سر آب نقش بنا گیا ،کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی ہلا دیا۔ جی حضور ہم تو جھیل میں چاند بھی ان کی مرضی سے دیکھتے ہیں ہم سے مراد حکمران ہیں جو اب تک قرض لیتے آئے ہیں اور عوام یہ قرض چکاتے آ رہے ہیں: قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن عوام بے بسی اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا چکے ہیں۔وہ دال روٹی سے تو محروم ہوئے مگر انہیں ووٹ کے اختیار سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ آپ جو مرضی منطقیں پیش کرتے رہیں کہ حلقہ بندیوں کے بعد فروری سے پہلے الیکشن ہو جائیں گے مگر ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ آپ کی نیت آپ کے لہجے میں عیاں ہے نتیجہ نکال کر بتایا جاتا ہے کہ انتخاب تو الیکشن کمیشن کے اختیار میں ہے۔ آپ کے تو اپنے ملک کے لوگ قابو میں نہیں ہیں مثلاً ابھی میں معروف دانشور اور شاعر مرزا محمد عباس کی پوسٹ پڑھ رہا تھا کہ سب سے بڑے مجرم آئی پی پیز ہیں ان کو بہت نوازا گیا آپ کو بھی یاد ہو گا کہ نواز شریف نے آتے ہی انہیں نوازا تھا ۔آج وزیر خزانہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ آئی پیز سے دوبارہ بات کرنا ہو گی پانی نہیں مر رہا ہے’ پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں‘۔ بڑی دکھ کی بات ہے کہ وہ سرنگیں بچھا کر خود لندن جا بیٹھے ۔یہ بھی آپ کو یاد ہو گا کہ جب ان کو کھلا اختیار ملا تو ان کی برادری کے بندے کم پڑ گئے کہ جنہیں کہیں نہ کہیں کھپایا جا سکے یہ خاندانی اور برادری نوازی ہمیں لے بیٹھی ،جاہل بھرتی ہوتے گئے۔سچی بات یہ کہ ہم جو تین پتھر چاٹ کر واپس آتے ہیں یعنی تیسری آپشن سے بھی مایوس ہو چکے ہیں۔اب چوتھا ستون جماعت اسلامی نظر اآتی ہے میرا مطلب سراج الحق کے ساتھ ہی کھڑا ہوکر دیکھ لیا جائے کہ وہ کہاں تک اپنی بات میں صادق ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے بالاتر ہو کر کوئی حل پیش کر سکیں۔ چلیے اور کچھ نہیں تو حکمرانوں کو بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے ہی سے روک سکیں۔میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ منظم لوگ ہیں وگرنہ عام آدمی کی کیا وقعت۔دوسری بات یہ کہ ان لوگوں کے مفادات نہیں بلکہ رضا الٰہی ہے۔ دیکھیے سراج الحق صاحب نے کہا کہ آپ بجلی کے پیسے ضرور لیں مگر یہ جو بیس قسم کے ٹیکس ہیں یہ تو ظالمانہ ہیں اور تو اور ریڈیو اور پی ٹی وی کے چارجز ہیں اور دونوں ڈارک ایجز کے محکمے ہیں۔ یا پھر آپ ہی بتائیں کہ اور کس طرف دیکھا جائے لے دے کے ایک استحکام پارٹی رہ جاتی ہے جس کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ اس کی اسمبلنگ ک کہیںسے ہوئی ہے شاید کوئی ایسا ہو جو لوٹے کے علاوہ کوئی پہچان رکھتا ہو۔ یہ پتھر جو خان نے اکٹھے کئے اسی پر برسنے لگے بہت اچھی بات سائرہ بانو نے کہی کہ بھارت نے کچرے سے بجلی پیدا کی اور ہم نے ایک پارٹی بنا دی۔جس میں کوئی اے ٹی ایم ہے کوئی ڈرگ سپلائر ، کوئی اور مافیاز سے۔ویسے حافظ حسین احمد کے بعد ایک سائرہ بانو ہی ایسی لیڈر آئی ہیں جنہوں نے صحیح معنوں میں اپوزیشن کی ہے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایکس پوز کیا ہے اپوزیشن اسی کو کہتے ہیں وگرنہ راجہ ریاض تو ایسے جیسے مذاق کر رہے ہوں۔کچھ باتیں ہمیں ہنسا بھی جاتی ہیں اور اس مخدوش صورت حال میں بھی ہم ایک لمحے کے لئے ان باتوں سے حظ اٹھا لیتے ہیں بھلا ہو فردوس عاشق اعوان کا کہ جو استحکام پارٹی کی ترجمان ہیں۔ کمال کی باتیں ہیں کہ وہ پاکستان کے استحکام کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں۔ویسے تو محترمہ اس استحکام کے لئے ہر پارٹی میں گئیں ۔ اس نظام کو یعنی رائج نظام کو استحکام تو حاصل ہے کہ برابر چل رہا ہے ضرورت تو اسے تبدیل کرنے کی ہے دیکھا جائے تو فردوس عاشق اعوان اپنی جگہ سچی ہیں کہ یہ استحکام ایک نظریہ کا ہے کہ سپید و سیاہ کے مالک۔ اس وقت عوام کو مسائل در مسائل کا سامنا ہے اس کے وسائل کی ضرورت ہے اور یہ وسائل اشرافیہ کے پاس ہیں اشرافیہ تو مبہم سا لفظ ہے طاقت کا سرچشمہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ وسائل انہی کے لئے ہیں اور تو اور عوام کو اچھی طرح مرنا بھی نصیب نہیں ۔بیمار ہو جائیں تو دوائی نہیں ،ہے تو خالص نہیں اور اب تو اس سے بھی آگے کی بات کہ دوائی دستیاب ہو نہیں۔خاص طور پر ٹیگرال جیسی دوا جو ذہنی مریضوں کے لئے ہوتی ہے اس عہد ناپرساں میں ذہنی مریض ملٹی پلائی ہو رہے ہیں۔ اس بے سکونی کو ختم کرنے کے لئے کوئی دوائی نہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ 310روپے والی دوائی 2900روپے میں بک رہی ہے یہ تاجر بھی خربوزوں کی طرح رنگ پکڑتے ہیں ان کے بس میں ہو تو لاشیں بھی بیچ دیں اسی رویے سے ہسپتالوں اور کلینکس کو دکانیں بنا دیا ۔ وہی آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے۔ایسی کہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے کہ لوگ سچ مچ کہنے لگے ہیں کہ یار مارشل لاء ہی لگ جائے وہی کہ اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ آخر میں سجاد بلوچ کا خوبصورت شعر: تو جو کرتا ہے خریدی ہوئی چڑیاں آزاد یہ تو کفارہ نہیں پیڑ کی بربادی کا ٭٭٭٭