لاہور ریلوے اسٹیشن پر آسٹریلیا مسجد قائم ہے ، جو ایک صدی کی تاریخ رکھتی ہے ۔26 اکتوبر 1925کو خواجہ محمد بخشؒ نے ا س کی بنیاد رکھی ۔ برادرم مفتی محمد عبد اللہ کے ہمراہ آسٹریلیا مسجد کی سیڑھیاں چڑھا، تو تاریخ کاایک باب کھل گیا۔ ایک صدی سامنے کھڑی دکھائی دی ۔ مولنا ڈاکٹر حافظ محمد سلیم سے مل کر کئی عقدے کھلے‘در وا ہوئے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 1941کو آسٹریلیا مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی ۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے کئی سجدے اسی مسجد میں کیے۔آسٹریلیا مسجد1947ء کے خستہ حال قافلوں کی عینی شاہد ہے۔ ان کے سجدوں کی گواہ ‘ مہاجرین کی اولین پناہ گاہ بھی۔ 1947ء میں مسلمانوں کو دو دکھ ملے۔ ایک مال کھونے کا ،دوسرا جبری دین و مذہب کی تبدیلی کا۔ اس مسجد نے دونوں کا تحفظ کیا ۔منظر دلخراش اور ہوا میں لہو کی بُو مگر آسٹریلیامسجد نے دونوں دکھ دور کیے ۔ اسی مسجد کے عقب میں لاہور کا مانچسٹر ہے ،جسے برانتھ روڈ کہا جاتا ہے ۔اسی بازار کے ایک ہندو تاجرنے خواجہ محمد بخشؒ کو اس زمین کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کی پیشکش کی ۔خواجہ صاحب نے استفسار کیا کہ یہان کیا تعمیر کرو گے اس نے جواب دیا : مندر۔خواجہ صاحب فرماتے ہیں : میں نے اسی لمحے یہ جگہ مسجد کے وقف کر دی۔ آسٹریلیامسجد نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خواجہ محمد بخش نامی بزرگ نے 1800 صدی میں آسٹریلیا کا دورہ کیا اور پھر مسجد کا نام آسٹریلیا رکھا۔ خواجہ محمدبخشؒ کا پورا خاندان آسٹریلیا میں مقیم ہے ۔آخری چشم و چراغ بھی دو برس قبل لاہور ہوٹل فروخت کر کے وہاں اپنے آباء کے پاس جا بسے۔اس خاندان نے جس بے سروسامانی مگر جوش و جذبے سے ہندو قوم پرستوں کا مقابلہ کیا، اس کی مثال صرف میدان کارزار میں ہی مل سکتی ہے۔کیونک ہتب سیاسی فضا کم بوجھل نہ تھی ،اس کے عناصر اربعہ کانگرس ‘ مسلم لیگ ہند و مھاسبھا اور دہشت پسند تھے۔ پورا شہر ایک سنگین قسم کے سیاسی ہیجان سے گزر رہا تھا۔ مسلمانوں کی بے قرار روح کسی آسودگی کی تلاش میں تھی، پہلے ہی فرقہ وارانہ بلوائیوں سے دوستی کی ،ردائے خوش رنگ پارہ پارہ ہو چکی تھی۔ وسیع الخیال ہندو رہنما اکٹھے ہو چکے تھے۔تب ایک ہیجان تھا، اب توجنگلوں کی وسعتیں پیچھے رہ گئیں اور ان کی جگہ شہروں کی کوچہ نوردیوں نے لے لی۔ جہاں درندوں کے بھٹ تھے، وہاں آج فلک بو عمارتیں اٹھ رہی ہیں۔مختار مسعود نے آواز دوست میں لکھا ہے :بدی اور نیکی کے درمیان صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے، ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو ننگ کائنات۔ ایک قدم آگے بڑھا لیں تو اشرف المخلوقات ،درمیان میں ٹھہر جائیں تو محض ہجوم۔ ڈاکٹرحافظ محمد سلیم نے ایک قدم آگے بڑھانے کو ترجیح دی۔اور مولانا عبد الروف ملک کا ساتھ دیا ،جس کے باعث آج اس مسجد میں 6سو طلبہ پڑھ رہے ہیں ۔ مدارس کا پیسہ مہمانان رسول کی امانت ہے۔انہی پر خرچ ہونا چاہیے، انہیں مال غنیمت نہ سمجھا جائے، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اسے مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کرنے والے کتنے ہی سورج گہنائے،کئی مینار بیٹھ گئے۔ محکمہ اوقاف پنجاب اس مسجد کا انتظام بہتر انداز میں چلا رہا ہے ۔چند روز قبل پاکستان میں تعینات آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکسن نے جامع مسجد آسٹریلیا کا دورہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا:’’ میں نے لاہور میں قائم آسٹریلین مسجد کا دورہ کیا ہے، جہاں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے بھی نماز ادا کی۔یہ مسجد پاکستان اور آسٹریلیا کے ثقافتی تعلقات کی غمازی ہے۔ مجھے مسجد میں پڑھنے والے بچوں اور معلموں سے ملاقات کر کے بہت اچھا لگا۔‘‘ مولنا انور شاہ کشمیری انجمن خدام الدین کے سالانہ جلسے میں ہر برس تشریف لاتے تھے ،علامہ محمد اقبال ؒ نے مولنا انورشاہ کشمیری سے ملاقات کی اور انھیں لاہو رمیں قیام پر اصرار کیا ۔شاعر مشرق نے آپ ؒ کو بادشاہی مسجد کی امامت و خطابت کی پیشکش کی ۔ اسلامیہ کالج میں اسلامیات اور عربی کے ڈین کا عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی ۔مولانا انوشاہ کشمیری ؒ نے شاعر مشرق کے اصرار پر ہی آسٹریلیا مسجد میں نماز فجر کے بعد درس قرآن دینے پر حامی بھری ۔علامہ اقبال ؒ تواتر کے ساتھ ایک مہینہ اس در س میں شریک ہوتے رہے ۔یہ دنیا اپنی زندگی کے انگنت برس گزار چکی، خدا جانے ابھی کتنے باقی ہیں لیکن علم کی محفلیں انور شاہ کشمیریؒ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں اور جب تک اس کائنات میں علم و فن دین ودانش کے زمزمے بلند رہیں گے، یہ فرہاد کمال بھی زندہ رہے گا۔مولنا انور شاہ کشمیری ؒ کے انتقال پر لاہور میں تعزیتی جلسے سے خطاب میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے اس مشہور سے شعر سے تاثرات شروع کئے تھے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن دیدہ ور پیدا پھر کہا:اسلام کی آخری پانچ سو سالہ تاریخ مولانا انور شاہ کشمیریؒ کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ایسا بلند پایہ عالم اور فاضل جلیل اب پیدا نہ ہو گا۔ راقم مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑا ہو ماہ وسال کی گمشدگی کی تلاش میں تھا ۔کیونکہ یہ جگہ تحریک آزادی کی گواہ ‘ دین کی سرفرازی کی علامت اور تاریخ کا ایک نشان خیز ہے مگرہر چیز اب بدل چکی‘ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی۔ جس کی شاخیں بھی زمین میں جڑ پکڑ چکیں اور ان سے نئے اور توانا درخت نکل رہے۔اہل علاقہ نے مسجد کی تعمیر اور سرفرازی میں ہاتھ بٹایا۔ڈیڑھ کینال میں مسجد قائم ہے ،ڈاکٹر حافظ محمد سلیم جو مولنا عبد الروف ملک کے معتمد خاص ہیں، وہ اب ملحقہ جگہ کی خریداری بھی کر رہے ہیں۔اب پرانے راوی اور نئے شہر کے درمیان بھولی بسری دنیا میں حسن و شباب سمیٹ رہی ہے۔ آسٹریلیا کی سرزمین پر بھی بلوچ قبائل نے اسلام متعارف کروایا۔1884 میں، بلوچ اونٹ بانوں نے ہرگوٹ اسپرنگس (مری، جنوبی آسٹریلیا) میں ایک مسجد ہاتھ سے تعمیرکی، جو آسٹریلیا کی پہلی مسجد بھی ہے۔مگر لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر 1925 میں تعمیر کی گئی مسجد میں بیک وقت ایک ہزار افراد کی نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ؒ