بدقسمتی سے ہم آخری کنارے پر کھڑے ہیں، اس سے آگے کھائی ہے، واپسی کا راستہ کھلا ہے، چند بڑے پتھر ہیں، جنہیں عام آدمی، اشرافیہ، بالادست طبقات اور سیاسی گروہ متحد ہو کر آسانی سے ہٹا سکتے ہیں لیکن مٹھی بھر افراد کے مفادات نے سب کو جکڑ رکھا ہے۔ دانش، فہم و فراست یا نظریات کے تابع معاشرہ جمہوری انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے مگر قوم کی تربیت نا ہوسکے، یہ صورتحال تمام بحرانوں کی اصل وجہ ہے۔ ہم کئی اعتبار سے خود اپنے دشمن ہیں جبکہ خارجی محاذ پر پالیسی ہر دور میں داخلی محاذ کے بگارڑ کی وجہ رہی ہے، تاحال یہی کشمکش ہے، جس کا تریاق نا کیا گیا تو معاشی تباہی کا سر کش طوفان سب کچھ بہا لے جائے گا۔ ایک ایسا طوفان امڈ آئے گا، جس کے آگے کوئی ٹھہر سکے گا نہ کسی کا بھرم برقرار رہ سکے گا۔ ہمارے ملک میں طوطا پالنا عام ہے، لوگ طوطے کو پاک اور بے ضرر جان کر پال لیتے ہیں، اسے بولنا سیکھاتے ہیں، پنجرے میں رکھتے ہیں اور اکثر پر کاٹ کر اپنے پاس بلی سے محفوظ بنا کر بیٹھا چھوڑتے ہیں۔ طوطا ہلکی پھلکی چھلانگیں لگاتا ہے، خود کو آزاد تصور کر کے خوش ہو لیتا ہے لیکن اگر اس طوطے کو بھوکا پیاسا رکھ کر پنجرا کھول کر کوئی ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش کرے تو وہ چونچ مارتا ہے، غصے میں اپنے مالک جو کہ اس کا اصل میں مالک نہیں ہوتا، اس کے ہاتھ کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام پاکستانی کی حالت اس سے زیادہ مختلف نہیں مگر وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی بھوک پریشان کن ہے، ہمارے حکمران ہمیں اس طوطے سے زیادہ نہیں سمجھتے! اگر کسی کو شک ہو تو پر پرزے نکال کر دیکھ لے، جلد یا دیر؛ اس کے پر کاٹ دئیے جائیں گے، تاہم قوم کی تربیت کا المیہ الگ اذیت ناک ہے، محکوم اور حاکم کے تصور نے معاشرتی جڑوں کو کمزور کر رکھا ہے، بھوک اور بنیادی ضروریات کے گھن چکر میں شعور کی آنکھ کبھی کھل نہ سکی۔ سو بجلی کے ظالمانہ بلوں پر ایک روز ہڑتال کے بعد سب کے سب ایسے چپ ہوگئے کہ لگتا ہے؛ اب ہڑتال کے بعد دو سے تین مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد نہ کوئی خودکشی کرنے پر مجبور ہے، نہ کسی کو موٹر سائیکل فروخت کے بجلی کا بل ادا کرنا پڑا۔ نہ کسی نے گھر اور دوکان کا سامان فروخت کر کے بجلی کے بل کے عذاب سے جان چھڑوائی، نہ کسی کے بجلی کا کنکشن کٹا، محسوس ہوتا ہے۔ مشاہدے اور حقیقت میں فرق ہے، یا تو بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عام پاکستانی کو احتجاج پر مجبور کیا تھا یا پھر اب مزید تین مرتبہ قیمتوں میں اضافے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ ایسا تو ہے، جسے سمجھنا مشکل ہے البتہ اس حقیقت سے کون انکار کرے کہ عقلی دلیل کے بغیر آج بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہم سب دودھ اور شہد کی نہریں بہتی دیکھنا چاہتے ہیں، حیرت ہے، ہمارا وجدان کتنا عمدہ ہے اور الہام کی مشق شائد دنیا میں ہم سے کسی کی عمدہ نہیں۔ پنجرے میں قید 25 کروڑ طوطے جانتے تک نہیں کہ ان کے پر کٹے ہوئے ہیں اور انھیں اس کا ادراک نہیں، دو وقت کے کھانے پر فقط نظریں مرکوز ہیں، احساس زیاں نہیں، شکوہ کریں تو کس سے؟ معشیت کی تباہی مرمت کے آسان فارمولے کی مرہون منت ہے، ہمیں مگر غیر ملکی سرمایہ کار درکار ہیں، اتنی سی بات کسی کی سمجھ میں 76 برسوں میں نہ آ سکی کہ جناب سرمایہ کار تو آجائینگے لیکن پیداواری شعبے میں ہماری صلاحیت کیا ہے؟ سرمایہ کار نصف سے زیادہ مشنری تو بیرون ممالک سے درآمد کرے گا، ہمیں خود بھی آخر کچھ کرنا ہوگا! آ جا کر زراعت بچی ہے، جس کے ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ چکے ہیں، ہاؤسنگ سوسائٹیز، کمرشل پلازے، شادی گھر اور پتہ نہیں کیا کچھ زرعی زمینوں پر تعمیر کر چکے اور باز آنے کیلئے تیار نہیں۔ ایسا کس ملک میں ہوتا ہے؟ سارے بگاڑ اور برائیوں کا ذمہ دار چئیرمن پی ٹی آئی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایک مخترم کالم نگار نے پی ڈی ایم حکومت قائم ہونے پر قلم سے شادیانے بجاتے ہوئے سوال کیا تھا اور اسے ہی اپنے کالم کی سرخی بنایا تھا: پراجیکٹ عمران خان کتنے میں پڑا؟ چوں چوں کے مربے پی ڈی ایم کی حکومت کے 16 ماہ بعد سوال ہے کہ پراجیکٹ پی ڈی ایم کتنے میں پڑا؟ کون جسارت کرسکتا ہے؟ مقدس جماعتوں اور ان کے مقدس سربراہان نے ہر اس شعبے کو نوازا جس کے ذمے معاشرے کے اہم امور ہیں۔ اس پر حیرت دوچند ہو جاتی ہے کہ آج بھی ان کے دعوے کم نہیں ہوئے، پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتوں کو کم ازکم اپنی نالائقی پر شرمندہ تو ہونا چاہئے لیکن نہیں، وہ تاحال آئندہ اقتدار میں آنے کی صورت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کر رہی ہیں، اس پر کیا تبصرہ کریں، فقط اتنا سن لیں: انتخابی موسم میں عوام کا سامنا آسان کام نہ ہوگا۔ پلیٹ میں رکھ کر ملنے والی حکومت ن لیگ کے ساتھ ساتھ ان تمام جماعتوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی جو اس مخلوط حکومت کا حصہ بنیں گی، ملک میں سکیورٹی محاذ پر بھی صورتحال افسوس ناک ہے، دہشت گردی کے بڑھتے واقعات رہی سہی کسر نکال رہے ہیں۔ ہنگو میں نماز جمعہ کے دوران دھماکے سے چار افراد شہید ہوگئے، مستونگ میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس پر خود کش حملہ کے باعث ڈی ایس پی سمیت 54 افراد شہید ہوئے، دشمن ملک بھارت کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد مل چکے ہیں، پورے ملک میں سوگ برپا ہے، ان حالات میں معاشی و اقتصادی سرگرمیاں مزید متاثر ہو رہی ہیں، لہذا ان حالات پر قابو پانے کیلئے مربوط حکمت عملی کو اپنانا ہوگی۔ سی پیک اور ون بیلٹ ون روٹ کی افادیت کے علاوہ عالمی استعماری طاقتوں کی جانب سے سنٹرل ایشاء میں بھارتی بالادستی کے خواب کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری حالت قدر درگروں ہوچکی ۔ نگران وزیراعظم کو لندن میں اوورسیز ڈیپارٹمنٹ نے اس بابت نشاندہی کی؛ پھر ملتان ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے 26 پیشہ ور بھکاریوں کو سعودی عرب جانے والی پرواز سے آف لوڈ کر دیا، مستحکم پاکستان کیلئے بحرانوں کو تسلیم کرنا ہوگا، سر خم تسلیم کرنا پوگا: بدقسمتی سے ہم آخری کنارے پر کھڑے ہیں، اس سے آگے کھائی ہے، واپسی کا راستہ کھلا ہے!!!