چند سال قبل تین سینیئربھارتی صحافیوں کی معیت میں مجھے چین کے دورہ کے دوران تبت اور اسکے متصل یوننان صوبوں کے دو ردراز دیہی علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بلند و بالا پہاڑوں میں واقع دیہاتوں میںضرورت کی ہر چیز اور جدید وسائل سے مالا مال اسکول و دیگر ادارے وغیرہ دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ ترقی بس پچھلی ایک دہائی کی دین ہے۔ تقریباً ہر دیہات کے کمیونٹی سینٹر میں اس علاقے کی پرانی تصویریں اور ماڈل رکھے ہوئے ہیں، تاکہ یہ سند رہے کہ ایک یا دو دہائی قبل اس گاوٗں کی تصویر کیسی تھی۔ چین کی اس بے مثال ترقی کی وجہ سے کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نکل کر مڈل کلاس کے زمرے میں آگئے ہیں۔ اگر بتایا جائے کہ ان دور دراز علاقوں میں سڑکوں پر سونا بچھایا گیا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ بھارت کے دور افتاد ہ اور پسماندہ اروناچل پردیش کے توانگ علاقہ کی سرحد کے دوسری طرف چین کا زڈانگ شہر خوبصورتی، جدید وسائل اور بلند و بالا عمارتوں کے معیار کو لیکر کسی بھی یورپی شہر کو شرمند ہ کرسکتا ہے۔ تبت کے دارالحکومت لہاسہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے۔ بلندی پر واقع دلائی لامہ کی سابق رہائش گاہ پوٹالہ پیلس سے اس کا نظارہ نہایت ہی خوش نما ہے۔ اس جھیل کے کنارے اس کا انچارج انجینئر مترجم کے ذریعے ہمیں بتا رہا تھا کہ اس جھیل کو بنانا سول انجنیئرنگ کے نقطہ نظر سے نہایت ہی مشکل کام تھا، کیونکہ دریائے لہاسہ کا لیول اس کے نیچے تھا، اس لئے دریا کے بیڈ کو بلاسٹ کرناپڑا۔ جب میرے ایک ساتھی نے سوال کیا کہ اس پروجیکٹ کی تعمیر میں کتنا وقت لگا، تو اس چینی ا نجینئرنے نہایت ہی ندامت اور پشیمانی کے ساتھ جواب دیا ۔ ’’کہ اس جھیل کو بنانے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا۔‘‘ اس کے خیال میں یہ بہت زیادہ وقت تھا۔ ہم ہنس پڑے۔ جنوبی ایشیاء میں ہمارے ملکوں میں تو پروجیکٹ رپورٹ بنانے میں ہی کئی دہائیاںلگ جاتی ہیں۔ چین اور ترکی دو ایسے ممالک ہیں، جو 70 اور 80ء کی دہائیو ں میں زندگی کے معیار کے حوالے سے بھارت اور پاکستان سے بھی گئے گذرے تھے ۔ گو کہ یہ بحث طلب امرہے کہ کیا اقتصادی ترقی و خوشحالی ،آزادی اظہار کا نعم البدل ہوسکتی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند دہائیوں میں ہی ایک موثر، پر خلوص اور سنجیدہ لیڈرشپ کی بدولت یہ ممالک ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے اور ا ن کا ہر شہر یا گائوں اس وقت ٹیکنالوجی پر مبنی ضروریات زندگی، بنیادی ڈھانچہ، وسائل اورعوام کو سوشل سیکورٹی کور دینے کے اعتبار سے یورپ یا امریکہ سے کہیں آگے ہیں۔ 1978میں چینی لیڈرڈنگ ژائو پنگ نے معاشی اصلاحات کو جو بیڑا اٹھایا اور جس طرح اب موجودہ سربراہ شی جن پنگ نے انکو آگے بڑھایا، انہو ں نے چاہئے ملٹری ہو یا اقتصادی وسائل، چین کو تقریباً امریکہ کے برابر کھڑا کر دیا ہے۔ڈنگ ژائو پنگ نے جس وقت آہنی دیوار میں شگاف کرکے معاشی لبرلائزیشن کا اعلان کرکے مارکیٹ اکانومی کو اپنایا، تو تب تک چینی کمپنیاں اس لیول تک پہنچ چکی تھیں کہ وہ مغربی دنیا کی مسابقت کر سکیں۔ مغربی کمپنیوں کو چین جیسی وسیع مارکیٹ تو ملی، مگر اس سے بڑی مارکیٹ چینی کمپنیوں کو حاصل ہوگئی۔ اس کے برعکس بھارت نے جب 1991میں معاشی لبرلائزیشن کا اعلان کیا تو اس کی کمپنیاں مسابقت کیلئے تیار ہی نہیں تھیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں مینو فیکچرنگ تقریباً منجمد ہو گئی ہے۔ بھارت کی اپنی ایمبسڈر کار، جس کی مارکیٹ پر اجارہ داری تھی، لبرلائزیشن کے بعد نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ ہاں انگریزی زبان سے واقفیت کی وجہ سے سروس سیکٹر میں بھارت کو برتری مل گئی۔ امریکہ کی 19.4ٹریلین ڈالر کے مقابلے چین کی اکانومی کا حجم 12.2ٹریلین ڈالر ہے۔ دس سال قبل یہ تین ٹرلین ڈالر سے بھی کم تھی۔ 2011میں ہوجن تائوکے اقتدار کے آخری مہینوں کی سب سے بڑی خبر تھی، کہ چین نے جاپان کی اکانومی جو ان دنوں تین ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ تھی، کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جاپا ن اس وقت چار ٹریلین ڈالر کی اکانومی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے اور چین سے کوسوں پیچھے ہے۔ لگ بھگ چین کی ہی جتنی آبادی والے ملک بھارت کی اکانومی کا حجم بس 2.6ٹریلین ڈالر ہے۔ الیکٹرک کاریں بنانے میں چین اس وقت ورلڈ لیڈر ہے۔ چین کی اسی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور ملٹری طاقت کی وجہ سے بیجنگ کے گریٹ ہال میں منعقد چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویںکانگریس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اس طرح کی کانگریس پانچ سال کے بعد ہوتی ہے، اس میں حکومت کی کارکردگی پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور مستقبل کیلئے پالیسی ڈائیرکشن دی جاتی ہے۔ اس کانگریس کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ جنگی جذبے کے ساتھ اندرونی چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائیگا اور دنیا میں طاقت کے بدلتے توازن کا بھر پور فائدہ اٹھاکر دنیا کے سامنے ایک نیا تزویراتی ویژن رکھا جائیگا۔ یہ اشارہ اقوام عالم میں امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ اور چین کی طرف سے اس خلا کو پر کرنے کے عزم کا اظہار تھا۔ جس نے امریکہ اور مغربی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ بیجنگ میں ملک بھر سے آئے 2,300ڈیلی گیٹس نے طویل مدتی اثرات کے حامل فیصلے کرتے ہوئے پارٹی کے ایک ڈھانچے کو بھی منظوری دی۔ یعنی ایک نئی 24رکنی پولٹ بیورو اور اس کے اند ر سات رکنی پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی (پی ایس سی)جو ایک طرح سے سپر کیبنٹ کاکام کرتی ہے ، کا قیام عمل میں لایا۔ اس میں چار نئے چہروں، لی کیانگ، کائی کیو، ڈنگ زوکسیانگ، اور لی ڑی کو جگہ مل گئی اور ظاہر ہے کہ یہ چین کے مسقبل کے لیڈران ہونگے۔ پرانے لیڈران میں ڑاؤ لیجی اور وانگ ہننگ نے اپنی رکنیت برقرار رکھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 69 سالہ صدر شی جن پنگ نے جن کو تیسری بار کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر کے طور پر اگلے پانچ سال کیلئے پھر منتخب کیا گیا، پی ایس سی کو اپنے وفاداروں سے بھر دیا ہے۔ جن اراکین کی طرف سے موہوم سی بھی اختلاف رائے کا خدشہ تھا، ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ اسی قد م نے مغربی ممالک کے تجزیہ کاروں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں۔ ان کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر حکمران کے طور پراپنے آ پ کو منوانے کے بعد اب شی جن پنگ اب کوئی اہم قدم اٹھانے والے ہیں، جس کو منوانے اور عملی جامہ پہنانے کیلئے پارٹی اور حکومت کے اندر انہوں نے راستے صاف کر دیے ہیں۔ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی سیاست میں اتنی طاقت حاصل کرنے والے پہلے شخص بن گئے ہیں۔ (جاری ہے)