ماں کو ہمیشہ سوئیٹر بْنتے ہوئے دیکھا۔ باجو کے ہاتھ تو اْون سلائیوں پر کسی مشین کی طرح چلتے تھے۔ رنگا رنگ نمونہ جھٹ پٹ بْن کر مفلر، سوئیٹر، کارڈیگن، دستانے، ٹوپیاں وغیرہ تیار کر لیا کرتی تھیں۔ کیا خوب صورت زمانے تھے اور کیا شاندار لوگ تھے؟ ان لوگوں کے ہاتھ ہمیشہ مصروف رہا کرتے تھے۔ کھانا پکانے اور گھر کی صفائی ستھرائی سے فارغ ہو کر دْھوپ میں بید کی ٹوکریوں میں نرم گرم اْون اور سلائیاں بڑی بوڑھیوں کی ہمنوا ہوا کرتی تھیں۔ وہیں کہیں آنگن میں بیٹھے بیٹھے وہ لوگ باتوں ہی باتوں میں پہاڑوں کی برفیلی ہواؤں کی سیر بھی کر لیا کرتی تھیں۔ کبھی صحرا بھی وہیں اْتر آتا تھا۔ کہیں چراگاہوں میں ہرنیاں اور میمنے چوکڑیاں بھرتے نظر آتے۔ کیونکہ وہ لوگ سوئیٹر بْننے کے ساتھ ساتھ پْرانی یادوں کے گولے بھی اْدھیڑتی رہتیں۔ ماں کے ہاتھ کے کبھی گارٹر سٹچ میں کبھی کیبل کے ڈیزائن میں بْنے ہوئے نرم گرم سوئیٹرز پہن کر میں کالج جاتی ،سہیلیاں خوب تعریف کرتیں تو میرا سینہ فخر سے تن جاتا۔ ماں نے پھر میرے بچوں کے بہترین ڈیزائن دار سوئیٹر بھی بنائے۔ بیٹی کی سکرٹ، فراک، پی کوٹ، بْوٹیز اور مِٹنز وغیرہ۔ بیٹوں کے کارڈیگن، ٹوپی والے کوٹ اور دستانے۔ شاندار دن تھے اور بْننے کا عمل حسین ترین ہْنر۔ مجھے شاید اس کا اندازہ کبھی نہ ہوتا اگر ان دنوں میں نے ماں کی یادوں کا ٹرنک نہ کھولا ہوتا۔ اس میں سے ڈھیر ساری اْونیں اور سلائیاں نکلیں۔ اس دفعہ سوئیٹر بْننے کا عمل مجھے محبت کی ان بسری راہوں میں لے گیا جس کا لْطف میں بْھول چکی تھی۔ برسوں سے ایک آٹو اِمیْون بیماری کا شکار ہونے کی وجہ سے میری یادداشت پر بھی کچھ کچھ منفی اثرات پڑنے لگے تو میں ایک نیا ہْنر سیکھنے کی سوچ میں تھی۔ انہی دنوں اللہ تعالیٰ نے مجھے پوتے جیسے عظیم نعمت سے نوازا۔ میں جو اپنے بچوں کا بچپن بْھول چکی تھی اچانک گود میں ننھے مْنے فرشتے کو لیا تو نہال ہو گئی۔ سب سے پہلے تو اس کا پورٹریٹ پینٹ کیا جو دادی کی طرف سے اپنے پیارے پوتے کو پہلی محبت کا تحفہ ہے۔ اب اس کے لیے سوئیٹر بْننا شروع کیا تو اْون کے دھاگوں میں سے جیسے محبت کے سْر تار بکھر گئے۔ محبت کی موسیقی میں میرے دل کی دھڑکنیں کھانا پینا، سونا جاگنا، ہر چیز بْھول گئیں۔ یاد رہا تو بس اْون کے گولے اور سلائیاں۔ میرا ذہنی تناؤ بھی بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے اور ہاتھوں میں بَسا ہوا سالہا سال کا درد بہت کم ہو گیا ہے۔ گو کہ میرے ہاتھوں کی اْنگلیاں ٹیڑھی ہو چکی ہیں مگر میرے سوہنے ربّ نے مجھے وہ طاقت عطا کی ہے کہ میں آج بھی بہت پینٹ کرتی ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے قلم کے ساتھ کالم لکھتی ہوں۔ خیر بات ہو رہی تھی گْم ہوتے ہوئے اس ہاتھ کے بْنے ہوئے سوئیٹروں کے بے مثال ہْنر کی کہ ہم اپنے معاشرے کی اس خوب صورت روایت کو بْھول بیٹھے ہیں۔ چْونکہ بْنائی کے اس عمل میں نو آموز ہوں لہذا گاہے مدد بھی درکار رہتی ہے۔ میری سہیلی کی امّی کو بھی میں امّی کہتی ہوں۔ وہ ملنے کو آئیں تو سوئیٹر کے گلے اور بازوؤں کی گھٹائی کرنا سیکھی۔ امّی کہنے لگیں کہ پرانے وقتوں میں لوگ اپنی بہو بیٹیوں کو باقاعدہ سلائی، کڑھائی اور بْنائی سکھایا کرتے تھے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تو اپنی اْون سلائیاں ساتھ لیے جاتے۔ باتیں بھی کرتے جاتے اور سوئیٹر بھی بْنتے جاتے۔ اسی واسطے ان دنوں ٹینشن نام کی چیزیں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔کیونکہ بْنائی کا عمل وہ ہتھیار ہے جو ذہنی دباؤ سے چْھٹکارا دلاتا ہے۔وہ خواتین جو ڈپریشن کا شکار ہیں بْنائی کے عمل کو اپنا کر دیکھ لیں ڈپریشن، پریشانی، شدید درد، اْداسی اور شدید تھکاوٹ وغیرہ سے اگر نجات مل جائے گی۔ یہ سب خرافات رفو چکر ہو جائیں گی۔ سوچ بچار یعنی مائنڈ فْل نیس سیکھنا ایک مشکل عمل ہے۔ آج کل چْونکہ ہر بندہ ذہنی انتشار کا شکار ہے تو میں اپنے انوکھے تجربے کی بنا پر کہوں گی کہ سوئیٹر بْننا شروع کیجیے۔ توجہ اور فکر آپ کے دماغ میں خود بخود اْتر آئے گی۔ جیسے ہم یوگا کرتے ہیں اس طرح بْنائی میں جسمانی حرکات و سکنات ہمارے ذہنی تناؤ کو بدل کر پْرسکون کر دیتی ہے۔ متناسب تال دار اور ہر دہراؤ کے پْھندے بْننے کا عمل دل کی دھڑکنوں اور سانسوں کو قرار دیتا ہے۔ اگر آپ کو سوئیٹر بْننا نہیں آتا تو سیدھی سلائی تو سبھی کو آتی ہو گی۔ بس اسی پر کوئی مفلر بْننا شروع کر دیجیے۔ اْون کی گرمائش اور محبت سوئیٹر کی بنائی تک لے جائے گی۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بْنائی کے عمل سے جسم میں سے سیرا ٹونن نام کا ہارمون نکلتا ہے جو مْوڈ کو خوشگوار بنا کر اور نیند کا باعث بھی بنتا ہے۔ Serotonin ایک قدرتی درد اور فکر کو کم کرنے والا ہارمون ہے۔ اگر یہ قدرتی طور پر جسم سے نکلے تو سوچیں ہم درد کو کم کرنے والی کتنی بے شمار گولیوں سے بچ سکتے ہیں۔ بْنائی کے عمل کو دریافت کرتے ہوئے میں اس حسین تجربے سے گزر رہی ہوں جس سے میری دردوں میں واضح فرق آیا ہے۔ جوش اور خوشی کے جذبات جنہیں میں تقریباً بْھول چکی تھی پھر سے سْلگ اْٹھے۔ میں اپنے ربّ اور اپنے پوتے محمد ریان کی شکر گزار ہوں کہ مجھے سوئیٹر بْننے کے فائدوں سے متعارف کروایا۔ میں یو ٹیوب پر سے دیکھ کر کارڈیگن بْننا سیکھ رہی ہوں۔ مجھے حیرت ناک خوشی ہوئی کہ یورپ اور امریکہ میں آج بھی عورتیں دھڑا دھڑ سوئیٹر بْن کر اپنے کاروبار بھی چلا رہی ہیں۔ بلکہ میں مزید حیران ہوئی جب بہت مرد حضرات بھی سوئیٹر بْنتے ہوئے دیکھے۔ ہمارے یہاں تو ہم نے مختلف چیزوں کو اجناس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ ہم روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے اْتار چڑھاؤ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سوئیٹر بْننے کا عمل ہماررے انتشار کا بٹن آف کر دیتا ہے۔ میری ماں اور باجو اب جنت میں سوئیٹر بْن رہی ہوں گی کیونکہ ان کے ہاتھ ہمیشہ مصروف رہا کرتے تھے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔