زیڈ اے ڈیسائی کے بقول مگھوں کے اکسانے پر کھمبات کے مقامی لوگوں نے جو بیشتر بیوپاری کمیونٹی تھے مسجدوں پر حملے کئے تھے اور اَسی مسلمانوں کو مارڈالا تھا۔ مگھ فرقہ اگنی پوجا کرنے والوں کا تھا۔ یہ تمام بیوپاری تھے اور بیوپاری میں مقابلہ بازی کی رقابت اِس دنگے کی اصل وجہ تھی نہ کہ کوئی مذہبی تعصب۔ مسجدیں اصل میں خلیج سے آکر آباد ہونے والے کامیاب بیوپاریوں کی پہچان تھیں۔ دنگوں کی رپورٹ پر مقامی مہاراجہ نے تفتیش کی اور مساجد اپنی اصلی حالت میں بنوائیں۔ کتبات بہت سے سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ محمود غزنوی کے حملے اگر اِتنے ہی سنگین، جذبات کو زخمی کردینے والے اور ناقابل ِ برداشت ہوتے جیسا کہ اب دعوے کئے جارہے ہیں تو حملوں کے دو سو برس بیت جانے کے بعد اِس طرح بھلا نہ دیا جاتا جیسا کہ 1263کے ایک کتبے کا سرسری حوالہ دیتے ہوئے صرف اتنا کہا ہے کہ محمود واپس جاتے سومناتھ پٹن میں کچھ فوج چھوڑ گیا تھا اور ایک دب شالم کو اپنا گورنر مقرر کردیا تھا۔ اِس طرح خلجی جرنیل الغ خاں نے منات بت کو اْکھاڑ پھینکا تھا جو کہ ہندوؤں کی دیو تھا اور جسے پہلے محمود غزنوی نے توڑا تھا مگر سومناتھ کے برہمنوں نے اسے دوبارہ مندر کے اندر سنگھاسن پہ بٹھا دیا تھا۔ الغ خاں نے بت کو دہلی بھیج دیا تھا جہاں اسے دہلی شہر میں ہر طرف نمائش کے لئے گھمایا گیا تھا۔ اِسی طرح علاؤالدین خلجی اور کنہا داد کے درمیان ایک برہمن مدھاوا پر جھگڑا ہوا۔ مدھاوا نے علاؤالدین کو گجرات پر حملے کی دعوت دی اور مدد کی۔ مدھاوا کی مدد سے جب خلجی فوجیں خفیہ راستے سے شہر میں داخل ہوئیں اور شہر کو لوٹا۔ رزمیہ گو شاعر نے توقع کے مطابق اِس حملے کا موازنہ ماضی کے محمود کے حملوں سے نہیں کیا ہے بلکہ رام کی فوج کا لنکا کا محاصرہ کرنے سے کیا ہے۔ الغ خاں واپس جاتے ہوئے لنگم کو بھی اٹھالایا تھا تاکہ دہلی لے جا کر اس کی نمائش کرے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لنگم کو توڑ کر پیسنا چاہتا تھا۔ یہ وہی عمل ہے جس کو فارسی بیانیہ نگاروں نے محمود غزنوی سے منسوب کیا تھا۔ سومناتھ مندر پر خلجی حملوں کے ان بیانیوں میں بھی محمود کے حملوں کا ذکر نہیں ہو ا ہے اور نہ اس بات کی کوئی وضاحت ملتی ہے کہ مندر کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہو۔ ’راجپوت اینڈ سیپوائے‘ کے صفحہ نمبر 96پہ ڈی ایچ اے کولف لکھتا ہے کہ درباری سازشوں کے موضوع پر دوسرا بیانیہ کنہا داد پر بندھ ہے۔ اس میں جذبہ فتح، درباروں کے رومانوں اور اس کے تناظر میں راجپوتوں اور ترکوں کے درمیان محاذ آرائی اور مفاہمت کیلئے بات چیت میں ناکامی کا بیان ہوا ہے۔ اس رزمیئے میں سومناتھ مندر سے بت کے اْٹھائے جانے اور اس کی دوبارہ واپسی کا ذکرا ہوا ہے لیکن اِسی قسم کے پچھلے واقعہ کے حوالے سے محمود کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ ’دی ٹائرنی آف لیبلز‘ میں آر تھاپر کہتے ہیں کہ جینی بیانیہ نگارپورے وثوق کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ان کے مقدس مراکز پر ترکوں کے حملے ان مراکز کے بتوں کا بال بیکا نہیں کرسکے تھے۔ وہ بیانئے جو شیوائی مصنفین نے مرتب کئے ہیں سومناتھ مندر پر محمود کے حملوں سے پیدا ہونے والی اتھل پتھل کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ ان بیانیوں میں یہ ضرور نظر آتا ہے کہ ترکوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مفاہمت اور بات چیت کو ترجیح دی گئی تھی کیونکہ بیوپاریوں کا یہی موقف تھا۔ اٹھارویں صدی میں ولیم جونز اور انیسویں صدی میں میکس ملر کے زمانوں میں ہندوستانی تہذیب کو مکمل طور پر ہندو دھرم اور سنسکرت کی بنیاد پر ساخت کیا گیا تھا جس کے محرک سرغنہ یہی دو انگریز ہیں۔ بودھ اور جین دھرموں کے کارناموں کو بھی ہندو دھرم کے ماتحت کردیا گیا اور اسلام کو ایک اجنبی اور باہر سے آنے والا مذہب قرار دیا گیا۔ دراصل بار بار مورخوں نے لکھا بھی ہے کہ پہلے زمانے کے ہندبیانیوں اور ماخذ میں جو واقعات ہیں انگریز نوآبادیاتی مورخوں نے ان کا ذکر کرنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی تھی۔ ان کو نظر انداز کرکے انیسویں صدی کے نوآبادیاتی دانشوروں نے اِس بحث کو اْٹھایا کہ سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملوں نے ہندوؤں میں طوفان برپا کردیا تھا اور ان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی تھی۔ ڈو نے اپنی تاریخ ’’ہسٹری آف ہندستان‘‘ 1767میں شائع کی جس میں اس نے فرشتہ کے بیان ہی کو دوہرادیا ہے۔ ڈو ہی کے بیان کوگبن اور مل نے دہرایا تھا۔ یہی بیان اکثر انیسویں صدی کے نو آبادیاتی مورخوں نے دہرایا ہے۔ اس طرح فرشتہ کے بیانیہ کو بلا جوازحتمی سند کا درجہ مل گیا۔ای گبن اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر VIنمبر 57کے صفحہ نمبر 361اور جے مل اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف برٹش انڈیا جلد 1صفحہ 117پہ لکھتے ہیں کہ اِس (فرشتہ کے) بیان میں نو آبادیاتی دانشوروں کی اس قدر دلچسپی کی دو وجوہات ہیں، اول ترکوں کے فارسی بیانیوں کو مرکز بنا کر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت و دشمنی اور محاذ آرائی کو بڑھاوا دینا اور دوم محمود نے جنت نما ہندوستان کو تباہ کرکے بنجر بنا دیا۔ نو آبادیاتی قوت نے اس بنجر میں پھول کھلائے اور ہندستان کو جنت بنایدا اور اس تناظر میں اس نے محمود کے تباہ کن کردار پر زور دیا اور اسے ہندوستان پر مسلمان اقتدار سے منسوب کردیا۔