اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اور بلاکم وکاست اپنی بات کہہ دیتے اور ان کے اکثر فیصلے جرأتمندانہ ہوتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اورسابق وزیر منصوبہ بند ی احسن اقبال جو نیب کی صعوبتیں جھیل رہے تھے کو رہا کر دیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے نیب کی کارکردگی پر جو ریمارکس دیئے وہ چونکا دینے والے ہیں۔ احسن اقبال کی درخواست ضمانت سنتے ہوئے فاضل بینچ نے خصوصی طور پر نوٹ کیا کہ ملزم کے خلاف کسی مجرمانہ نیت یا مالی مفادات حاصل کرنے کا نیب کی طرف سے کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ عدالت نے اس پر حیرانی کا اظہار کیا، کہ اس پس منظر میں احسن اقبال کو جنہیں دسمبر میں گرفتار کیا گیا تھا کیونکر پابند سلاسل رکھا گیا۔ اگر واقعی یہی خطرہ تھا کہ عوامی نمائندہ ہونے کے باوجود سابق وزیر منصوبہ بندی ملک سے بھاگ جائیں گے تو ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جا سکتا تھا۔ واضح رہے کہ ضمانت پر رہائی کے بعد احسن اقبال نے اپنا پاسپورٹ نیب کے پاس جمع کرادیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا سلوک تو برطانیہ میں دہشت گردوں کے سا تھ بھی نہیں کیا جاتا اور اس کی آزادی سلب کرنے سے پہلے بارہ شرائط پرعمل کیا جاتا ہے اور محض اس بہانے پرکہ ملزم سے تحقیقات کرنے کے لیے اسے گرفتار کیا جا رہا ہے، عذرلنگ ہے اور نیب کی نااہلی کا بین ثبوت ہے۔ نیب نے شریک ملزموں کو وعدہ معاف گواہ بنا کر پلی بارگین کرکے مجرموںکے خلاف استعمال کیا۔ عدلیہ نے درست طور پر کہا کہ نیب تو ایک تحقیقاتی ادارہ ہے جبکہ پلی بارگین عدالتوں کا اختیار ہوتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے کیس میں عدالت نے نوٹ کیا کہ ایل این جی پراجیکٹ میں عوام کا پیسہ خرچ نہیں ہوا بلکہ یہ یو ایس ایڈ کے تحت لگا تھا۔ شاہدخاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ نیب نے دوران حراست مجھ سے کو ئی سوال نہیں پوچھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والوں کو پیغام بھیجا گیا کہ میرے خلاف بیان دے کر آپ اپنی جان بچائیں۔ نیب کے اس دعوے کے جواب میں کہ شاہد خاقان عباسی نے مہنگے داموں ایل این جی خریدی، چیف جسٹس نے سوال کیا،کیا نیب نے اس بات کی انکوائری کی ہے کہ اس سے سستی گیس کہیںسے مل سکتی تھی؟ جس کا نیب کا وکیل کوئی جواب نہ دے سکا جس پر شاہد خاقان عباسی کورہا کر دیا گیا۔ تاحال مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق ان کے برادر خورد سلمان رفیق اور حمزہ شہباز نیب کی حراست میں ہیں، لگتا ہے کہ یہ بھی بالآخر ضمانت پر باہر آجائیں گے۔ اس ضمن میں ایک مثال معروف بزنس مین اقبال زیڈ احمد کی بھی ہے جو ایل پی جی کا کاروبار کرتے وہ بھی اس کے باوجود کئی ماہ سے جیل میں ہیں حالانکہ ان کے خلاف بھی لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔ ستم ظریفی ہے کہ نیب کے ہائی پروفائل قیدیوں کو کئی کئی ماہ جیل میں رکھا جاتا ہے لیکن ان سے کوئی خاص پوچھ گچھ نہیں کی جاتی جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مقصد احتساب نہیں بلکہ انتقام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کئی مرتبہ برملا اعلان کر چکے ہیں کہ’’میں چوروں کو نہیں چھوڑوں گا اور ملک کو کرپشن سے پاک کرکے دم لوں گا‘‘ لیکن جب وہ چوروں کی بات کرتے ہیں تو انہیں صرف اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) میں چور ہی چور نظر آتے ہیں۔ اسی بنا پر میاں نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سب ضمانت پر رہا ہیں۔ دوسری طرف آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور ان کے بزنس پارٹنر پابند سلاسل ہیں جبکہ ان کے صاحبزادے عبد الغنی مجید بھی ضمانت پر رہائی کے بعد علاج کروا رہے ہیں۔ بعض عالمی اداروں نے نیب کی یکطرفہ کا رروائیوں کا نوٹس لیتے ہوئے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اس کی احتسابی سرگرمیوں کا نزلہ زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں پر گرتا ہے اور حکومتی جماعت کے ارکان پر نہیں۔ گویا کہ اگر آپ تحریک انصاف میں ہیں توکرپشن کے الزامات ہونے کے باوجود دودھ سے دھلے ہوئے ہیں۔ نیب کے قانون میں گزشتہ برس بعض ترامیم کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود اسے لوگو ں کو کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی محض شکایات کی بناپر گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بجاطور پر سوال اٹھایاکہ اگر ملزمان سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے تو انھیں گرفتار کیوں کر لیا جاتا ہے جس کے جواب میں کسی پہلی پیشی پر نیب کے وکیل نے بڑا بھونڈا جواب دیا کہ ایسا نہ کیا جائے تو ملزمان ریکارڈ کو ٹیمپر کر سکتے ہیں۔ جس پر عدالت نے سوال کیا کہ جو شخص اب اپنے محکمے کا وزیر ہی نہیں رہا وہ کیسے ریکارڈ میںردوبدل کر سکتا ہے۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ نیب کے اکثر افسران وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنے کی اہلیت سے ہی عاری ہیں۔ ان میں ریٹائرسول وفوجی افسران جن کا زندگی بھر بزنس یا بینکنگ اورفنانس سے کوئی تعلق نہیں رہا وہ ان معاملات کی تحقیقات میں کیسے مہارت دکھا سکتے ہیں، اسی بناپر نیب اب تک کوئی بڑی وصولیاں نہیں کر پایا بلکہ بعض حکومتی ناقد ین بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ کرپٹ عناصر بھی سمجھ گئے ہیں کہ نیب کی حراست میں چند ماہ گزارنے کے بعد وہ ضمانت پر باہر آجاتے ہیں اور ان کا معاملہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجاتا ہے۔ قریباً دو دہائی قبل جب اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف نے نیب کی بنیاد رکھی تو اس وقت مقصد نہ تو احتساب تھا اور نہ ہی انتقام بلکہ سیاستدانوں کو نیب کے ذریعے بلیک میل کرکے لوٹوں پر مشتمل کنگز پارٹی بنانا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے الیکٹ ایبل ارکان پرانٹیلی جنس ایجنسیوں اور پرویز مشرف کی کچن کیبنٹ کے چند ارکان کے ذریعے دباؤ ڈالا گیا۔ جس کے نتیجے میںپیپلزپارٹی کی کو کھ سے پیٹریاٹس نے جنم لیا۔ اس حوالے سے راؤ سکندر اقبال اور فیصل صا لح حیا ت نے کلیدی کردار ادا کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) میں یہ ٹاسک چودھری شجاعت حسین کو سونپاگیا۔ کرپشن کا قلع قمع کرنا ایک انتہائی مستحسن کام ہے لیکن قریباً ہر فوجی ڈکٹیٹرنے کرپشن کے خاتمے کے نام پر ہی جمہوریت کو پیروں تلے روندا اور بعد میں انہی کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملا کر جعلی جمہوریت کا احیا کیا۔ اب فرق کیا ہے کہ خان صاحب پر بھی یہی الزام لگ رہا ہے کہ وہ احتسا ب کے نام پر انتقام کے راستے پر چل رہے ہیں اگر وہ احتساب کے بارے میں واقعی سنجید ہ ہیں تو انہیں وسیع تر مشاورت کے ذریعے صاف شفاف احتساب کے لیے ایسا قانون بنانا ہو گاجس سے انتقام کی بو نہ آئے۔