مکرمی! بدبختی بظاہر ایک عام فہم اور کثیر الاستعمال لفظ ہے جسے اکثر و بیشتر بلاضرورت بھی استعمال کر لیا جاتا ہے، کبھی کبھار کسی کو بدبخت کہہ کر ہم اس سے اپنے خفیف سے تعلق کا اظہار بھی کرتے ہیں اور کلمہ نصیحت کے طور پر بھی بدبخت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر اس پانچ حرفی مختصر لفظ کے اندر معانی کا ایک سمندر پنہاں ہے اور یہ لفظ پل جھپکنے میں انسان کو کمال سے زوال، مال سے وبال، حال سے بے حال اور جلال سے ملال کے مقام ہزیمت پر لا کھڑا کرتا ہے، یہ بدبختی کسی عام شخص کے حصے میں نہیں آتی بلکہ ایسے صاحب فضل افراد کا برا نصیب بنتی ہے جنہیں اللہ رب العزت نے کسی بھی سبب سے ان کے جْصے سے زیادہ حصے سے نوازا ہوتا ہے اور پھر وہ شخص اس کمال کو اپنا مال سمجھ کر اپنی خواہش کے مطابق تصرف میں لاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ جس اللہ نے اسے یہ کمال، یہ جلال، عہدہ اور اختیار دیا ہے اس اللہ کو تکبر، غرور، رعونت، تعصب، کینہ، حسد پسند نہیں ہے۔ کائنات کا پہلا بدبخت شیطان مردود ہے جس نے ساری عمر اللہ رب العزت کی اطاعت و فرمانبرداری، عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ میں بسر کی۔اس اطاعت و تابعداری کے نتیجے میں ناری ہوتے ہوئے نوری مخلوق پر فوقیت و فضیلت حاصل کی اور اللہ کے قرب خاص میں شامل ہو گیا اور پھر اللہ رب العزت نے شیطان کو مٹی سے تخلیق کردہ آدم کے سامنے سربسجود ہونے کا حکم دیا لیکن طاقت، سرداری کے زعم میں مبتلا شیطان مردود اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے اپنی ذہانت، اپنی علمیت اور سخت عبادت و ریاضت کا موازنہ کرتے ہوئے اکڑ گیا اور گویا ہوا کہ میں افضل و برتر اور بہت سینئر ہوں، میری تابعداری اور جانثاری کا کوئی ہم سر نہیں ہے، میں آگ ہوں اور آگ میں پہاڑوں جیسی بلندی کی صفت پائی جاتی ہے اور مٹی پستی کی علامت ہے، خود ساختہ تصورات، تکبر اور غرور نے شیطان لعین کو اس نتیجہ پر پہنچایا کہ بلندی پستی کے سامنے نہیں جھک سکتی، شیطان لعین سمجھتا تھا کہ وہ ذہین و فطین ہے، عرش کا مکین ہے، اس کے تجربے اور مشاہدے کی صفت کا کوئی اور فرشتہ مثل نہیں ہے، شیطان لعین بھول گیا کہ وہ جن صفات اور جس قوت گویائی اور فن تقریر پر اترا رہا ہے وہ کمال اس کا اپنا نہیں ہے بلکہ کسی کی عطاء ہے، اس رب رحیم کی عطا جو اسے عدم سے وجود میں لایا، بے معنی سے بامعنی اور ادنیٰ سے اعلیٰ بنایا، پل بھر کے اس شیطانی مکالمے اور انکار و انحراف نے اسے فرشتوں کے سردار سے آدم کا غدار بنا دیا، انکار و انحراف کا یہ پل بھر کا سفر اس کے لیے بدبختی ثابت ہوا اوراس کا علم، حلم فہم و ذکا سب آگ میں جل کر خاکستر ہو گیا اور اس بدبختی نے شیطان مردود کو اللہ کے مقرب فرشتوں کی صف سے ہی نہیں نکالا بلکہ قیامت تک کے لئے اسے لعنت کا مستحق ٹھہرا دیا۔ (عمران ریاض‘ لاہور)