وفاقی شرعی 1980ء میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے وجود میں لائی گئی کیونکہ اس وقت ملک میں مارشل لا تھا اور آئین معطل تھا۔ تاہم بعد میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسے آئینی تحفظ دیا گیا اور اب آئین کی دفعات 203اے سے 203 جے میں اس عدالت کے معلق تفصیلات دی گئی ہیں۔اس عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو "قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام"سے ’’تصادم‘‘کی بنیاد پر کالعدم کرسکتی ہے۔ البتہ آئین، عدالتی طریقِ کار سے متعلق قوانین اور مسلم شخصی قوانین اس عدالت کے اختیارِ سماعت سے باہر ہیں۔ قوانین کے خلاف کوئی بھی شہری درخواست (شریعت پٹیشن) دائر کرسکتا ہے،جبکہ عدالت از خود بھی کسی قانون کے متعلق کارروائی کا آغاز کرسکتی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی شخص سپریم کورٹ میں اپیل کرسکتا ہے جہاں اپیل کی سماعت کیلیے خصوصی بنچ’’شریعت اپیلیٹ بنچ‘‘ہوتا ہے۔ اس بنچ میں سپریم کورٹ کے تین مسلمان ججوں کے علاوہ دو علما رکن ہوتے ہیں۔ شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر ہوتے ہی وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ خود بخود معطل ہوجاتا ہے جب تک اس اپیل کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ اس قانون کے خلاف پہلی درخواست مارچ 2020ء میں دائر کی گئی۔ ایک اور درخواست بھی اسی سال دائر کی گئی۔ بعد میں مزید کئی درخواستیں دائر کی گئیں (2021ء میں 4، 2022ء میں 5 اور 2023ء میں 1،کل 12 درخواستیں) جن سب کو عدالت نے سماعت کیلیے اکٹھا کیا۔ ابتدا میں سماعت تین رکنی بنچ نے کی، لیکن مئی 2022ء میں چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی کے عہدے کی میعاد پوری ہونے کے بعد اس مقدمے کی سماعت باقی رہنے والے دو جج صاحبان نے کی۔ ستمبر 2020ء میں عدالت نے پہلی درخواست کی سماعت کی، جبکہ آخری سماعت 11 مئی 2023ء کو کی گئی اور فیصلہ 19 مئی 2023ء کو سنایا گیا۔فیصلہ عالم جج جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے لکھا جس سے جسٹس خادم حسین نے اتفاق کیا۔فیصلہ کل 108 صفحات پر مشتمل ہے جن میں ابتدائی 8 صفحات تمہیدی مواد پر مشتمل ہیں،پھر تقریباً 30 صفحات میں درخواست گزاروں کے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد تقریباً 25 صفحات میں مسئول علیہان اور ماہرین و معاونینِ عدالت کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔ عدالت کی جانب سے تجزیہ 63ویں صفحات پر شروع ہوتا ہے جس کی ابتدا میں درج ذیل 4 سوالات کا تعین کیا گیا ہے : پہلا سوال: کیا ٹرانس جینڈر کی تعریف میں مذکور 5 تراکیب (انٹرسیکس، یونک، ٹرانس جینڈر مین، ٹرانس جینڈر وومن اور خواجہ سرا) ہم معنی اور مترادف ہیں؟ دوسرا سوال:کیا کسی شخص کی بطور مرد یا عورت شناخت کے لیے جنس یا صنف قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام کی روشنی میں بنیاد ہے؟ تیسرا سوال: کیا اس قانون میں "صنفی شناخت" اور "اظہارِ صنف" کی تراکیب قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام کے مطابق ہیں؟ چوتھا سوال:کیا تولیدی نظام یا جنسی اعضا میں نقص کے شکار افراد کو اسلام طبی علاج کی اجازت دیتا ہے؟ ان سوالات پر تمام فریقوں کے دلائل کے تفصیلی تجزیے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انٹر سیکس اور ٹرانس جینڈر دو الگ تصورات اور انواع ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی جگہ استعمال نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ انٹرسیکس کا مسئلہ جسمانی، جبکہ ٹرانس جینڈر کا مسئلہ ذہنی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے انٹرسیکس کیلیے طبی علاج کے شرعی جواز کی بات کی ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسلامی شریعت میں اسے خنثیٰ کہا جاتا ہے اور اس کے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں جن میں ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ خنثیٰ کی جنس کے تعین میں ابہام یا پیچیدگی ہوتی ہے جسے جسمانی علامات کی بنیاد پر یا تولیدی نظام کے تجزیے کے بعد دور کیا جاسکتا ہے اور پھر جب اس کی جنس کا تعین ہوجائے، تو پھر اس پر متعلقہ جنس ( مرد یا عورت) کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ یونک اور خواجہ سرا کے متعلق عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف نام ہیں، ایک انگریزی میں اور ایک اردو میں۔ دونوں سے مراد وہ مرد ہیں جن کے ساتھ اخصاء (castration) کا عمل کیا گیا ہو، یعنی انھیں نامرد کیا گیا ہو، اور جنھیں عربی میں خصی کہتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی شریعت کی رو سے قطعی طور پر ناجائز ہے، خواہ یہ کسی مرد کی مرضی سے کیا جائے۔عدالت نے اسے اللہ کی تخلیق بدلنے کے مفہوم میں شامل سمجھا ہے اور اس کے متعلق قرآن و سنت سے نصوص نقل کی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ اگر یہ عمل جبراً کیا جائے، تو اس پر اتلافِ عضو کے متعلق مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کا اطلاق بھی ہوگا۔ عدالت نے اس عمل کی اجازت کو اشد طبی ضرورت کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کی تشخیص اور تجویز کے ساتھ مشروط کیا ہے۔نیز عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ نوع بھی ٹرانس جینڈر سے مختلف ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اس قانون میں چونکہ ایک جانب خواجہ سرا اور یونک کو دو انواع بنایا گیا ہے، پھر ان کو انٹر سیکس سمیت، ٹرانس جینڈر پرسنز کے ساتھ ملایا ہے، اس لیے یہاں سے ابہام پیدا ہوا ہے۔ خواجہ سرا/یونک اور انٹرسیکس/خنثیٰ کے متعلق اسلامی احکام کی وضاحت کے بعد آخر میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ احکام ٹرانس جینڈر مین یا ٹرانس جینڈر وومن کیلیے نہیں ہیں کیونکہ ان دو انواع کی بنیاد جسم پر نہیں بلکہ ذاتی اظہارِ صنف اور صنفی شناخت کے تصورات پر ہے جن کیلیے اسلامی احکام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عدالت نے جنس (sex) اور صنف (gender) کے درمیان فرق پر پہلے تو مختلف زبانوں کی لغات اور پھر مختلف اداروں اور افراد کی آراء کا ذکر کیا ہے اور پھر قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام کی روشنی میں تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام کی رو سے جنس اور صنف میں فرق نہیں ہے اور یہ کہ صنف کا جنس کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ عدالت نے متعدد آیات و احادیث کا حوالہ دے کر یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسلام کی رو سے جنس بس دو ہی ہیں:مرد یا عورت اور یہ کہ چونکہ صنف کا انحصار جنس پر ہے،اس لیے اسلام کی رو سے اپنی مرضی سے صنف تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی بنا پر عدالت نے اس قانون کی دفعہ 7 کو بھی اسلامی احکام سے متصادم قرار دیا ہے کیونکہ اس دفعہ میں وراثت میں حصوں کو بھی ذاتی اظہارِ صنف اور صنفی شناخت کی بنیاد مقرر کرنے کا اصول طے کیا گیا تھا۔ اس فیصلے سے متاثرہ کوئی بھی فرد 60 دنوں کے اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتا ہے جبکہ حکومت کے پاس 6 مہینوں تک اپیل کرنے کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ اس قانون میں ترمیم کیلیے متعدد بل سینیٹ میں پہلے ہی پیش کیے گئے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ان ترمیمی بلوں پر اپنی رپورٹ تیار کرلی ہے اور جلد ان پر سینیٹ میں بحث اور ووٹنگ ہوگی۔