امریکہ بہادر نے تقریباً بیس سال افغانستان میں رگڑا کھایا‘ہزاروں فوجیوں کی جانی قربانی دی اور دو ٹرلین ڈالر سے زائد کا بل ادا کرنے کے بعد واپس گھر کی راہ لی۔دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کی اس قدر ہزیمت بہت سے لوگوں کے لئے باعث حیرت ہے۔خود امریکی عوام بھی اس پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔وہ کسی نہ کسی اور ملک کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔امریکہ میں حزب اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی نے سینٹ میں ایک بل پیش کیا ہے جس کا نام افغانستان کائونٹر ٹررازم اور سائٹ اینڈ اکائونٹبلیٹی ایکٹ ہے۔اس بل کا اصل مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو شکست دینے والے طالبان اور طالبان کا ساتھ دینے والی اقوام پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔اس بل میں پاکستان کا ذکر خاص طور پر کیا گیاہے۔اس بل میں پاکستان کے خصوصی ذکر کے لئے بھارتی لابی کی کوششوں کا بھی عمل دخل ہے اور چند ان پاکستانیوں کا بھی حصہ ہے جو امریکہ میں بیٹھ کر میر جعفر اور میر صادق بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی وطن کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔پاکستان میں ایسے عناصر کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنے اقتدار اور دور وزارت اور سفارت میں ہی پاکستان کی بھلائی کا سوچتے ہیں ورنہ ان کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ میں ایک وسیع البنیاد تحقیقات کی جاتیں تاکہ امریکہ کی شکست کے اصل اسباب معلوم ہو سکتے۔ان تحقیقات میں یہ بھی معلوم کیا جاتا کہ افغانستان میں خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کہاں گئے اور کن کن امریکی ٹھیکیداروں کی جیبیں بھری گئیں۔ان اربوں ڈالرمیں فوجی اور غیر فوجی امریکی سرکاری افسروں نے کتنا فائدہ اٹھایا۔لیکن تاریخ کا سب سے برا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔امریکہ اگر سبق سیکھنا چاہتا تو ویتنام‘عراق‘ شام اور یمن میں بھی سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔برطانیہ اور روس کی افغانستان کے خلاف جنگ بھی اگر غور سے پڑھی جاتی تو امریکہ افغانستان میں فوجیں اتارنے کی غلطی نہ دہراتا۔اب کیا کیا جائے کہ امریکہ اپنی اکائونٹبلیٹی کی بجائے دوسروں کی اکائونٹبلیٹی پر پختہ یقین رکھتا ہے۔طالبان کی حکومت پہلے ہی امریکہ کو تنبیہ کر چکی ہے کہ ان کے ڈرون افغانستان میں نظر آ رہے ہیں اور افغانستان میں ڈرون استعمال کرنے کی انہیں قیمت ادا کرنی پڑے گی۔جہاں تک اس بل کا تعلق ہے ہمیں پاکستان میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک تو یہ بل اپوزیشن کے 22ممبران نے پیش کیا ہے اور ان 22سینیٹرز میں ایک بھی حکومتی سینیٹر موجود نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستان نے فوجی لحاظ سے طالبان کی قطعی کوئی امداد نہیں کی۔بھارت نے جو گمراہ کن پراپیگنڈا پاکستان کے خلاف کیا کہ پاکستانی افواج نے پنجشیر میں عملی طور پر حصہ لیا اور افغانستان میں طالبان کی فوجی امداد کی۔اس کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی طرح کا ایک ڈوزیر ان بھارتی الزامات کو رد کرنے کے بارے میں بھی بننا چاہیے اور اسے امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کے حوالے کرنا چاہیے تاکہ بھارت کا سفید جھوٹ سامنے آ سکے۔اس کے علاوہ حکومت پاکستان کو ایک اور اہم بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔آج تک حکومت پاکستان کسی ایسے پاکستان کو بھی قابل ذکر سزا نہیں دے سکی، جو پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرتے ہیں۔اس کی دو بڑی مثالیں بانی ایم کیو ایم اور حسین حقانی ہیں۔ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح انہیں عبرت کا نشان بنایا جا سکتا ہے۔امریکہ اور برطانیہ سے سفارتی تعلقات میں ہمیں خوئے غلام سے باہر نکلنا ہو گا اور Reciprocityکو اپنانا ہو گا۔اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے دیرینہ دوست چین کو اپنی Absolitelyکی پالیسی پر امریکی ردعمل کے لئے تیار کیا جائے۔روس اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی ایک مشترکہ حکمت عملی کے لئے آمادہ کیا جائے۔الحمد للہ پاکستان ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے اور کسی بھی طاقت کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ پاکستان کو Blackmailکر سکے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو اپنے اندرونی حالات کو ٹھیک کرنا پڑے گا،اگر کسی ملک کے عوام بیرونی دشمن کے خلاف متحد نہ ہوں توطاقتور افواج بھی کچھ نہیں کر سکتی۔اس وقت پاکستان کے عوام سیاسی طور پر منقسم ہیں کوئی دشمن بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر موجودہ حکومت Absolitely notکی پالیسی پر گامزن ہے تو کئی جماعتیں Absolitely yesکے لئے تیار بیٹھی ہیں، اس کے لئے عوام کو حقائق سے روشناس کروانا ہو گا اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کے مفاد کے خلاف قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکے۔اس کے لئے سزا اور جزا کا عمل نہایت ضروری ہے۔سابق فرانسیسی صدر سرکوزی کو انتخابات میں غیر قانونی رقم استعمال کرنے پر ایک سال کی سزا سنائی گئی ہے اور اس کی جماعت کی جرات نہیں ، کہ وہ اس کو سہارا دے سکے۔ کیا ایسا ماحول پاکستان میں نہیں پیدا کیا جا سکتا۔قانون کی عملداری ہی میں سب کی بھلائی ہے۔یہ ماحول بنانے میں میڈیا کا ایک بنیادی کردار ہے۔ حکومت کو میڈیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے جبکہ حکومت بلا جواز میڈیا سے جنگ کی حالت میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا ملک کے لئے حقیر نہیں ہے لیکن اس کے لئے کچھ حدود ہونی چاہیں تاکہ وہ ان حدود میں رہ کر کام کر سکے۔ پاکستان کی حکومت کو کھلے دل کے ساتھ میرٹ کے مطابق فیصلے کرنے چاہیں تاکہ عوام کو نظر آئے کہ حکومت کے سب فیصلے قومی مفاد میں ہوتے ہیں، اب حکومت ایک اور بڑا فیصلہ کرنے جا رہی ہے جو کسی طرح بھی عوامی مفاد میں نہیں۔چیئرمین نیب نے اپنے موجودہ دور میں کون سا تیر چلایا ہے کہ انہیں 76برس کی عمر میں توسیع دینے کا سوچا جا رہا ہے۔کیا 22کروڑ کے اس ملک میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے، جو موجودہ چیئرمین نیب کی جگہ لے سکے۔اس سے صرف ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ یا تو موجودہ چیئرمین حکومت کے حق میں ڈنڈی مارتا ہے یا حکومت میرٹ پر تقرری کرنے میں کسی خوف کا شکار ہے۔اگر اپوزیشن لیڈر کی مرضی کے بغیر توسیع دی سکتی ہے تو اس کے بغیر نیا چیئرمین کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔جس ملک میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سہ ماہی بنیادوں پر بدلے جائیں، وہاں چیئرمین نیب کی توسیع ایک غیر فطری عمل ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی غیر منتخب شدہ مشیروں کی تقرری پے درپے غلط ثابت ہوئی ہے لیکن انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔بیشتر مشیر پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرتے رہے اور تبدیل ہوتے رہے لیکن کسی کو بھی صحیح معنوں میں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا اور سزا اور جزا کا عمل کہیں نظر نہیں آیا۔کئی سکینڈل سامنے آئے لیکن ایک بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔دوائیاں ‘گندم اور پٹرول سکینڈل سب قالین کے نیچے دب گئے اور کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔جب قانون کی عملداری اس طرح کی ہو گی تو عوام کو کیسے یقین آئے گا کہ حکومت کی فیصلہ سازی میں عوام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔پاکستان کے عوام محب وطن اور قربانی دینے والے ہیں بشرطیکہ انہیں نظر آئے کہ ان کے لیڈر بھی قربانی دے رہے ہیں۔ہمارے وزیر مشیر اور عوامی نمائندے تو صرف اپنی تنخواہ اور مراعات بڑھانے میں متحد ہیں اور باقی سارے معاملات میں ایک دوسرے کے دشمن۔ہمیں کم از کم بیرونی دشمنوں کے خلاف مکمل طور پر متحد ہونا ہو گا۔اگر ہماری قوم متحد ہو جائے تو بڑے سے بڑا دشمن بھی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔