اننت کرشنن، جو بیجنگ سے بھارت کے معروف اخبار دی ہندو کے لیے لکھتے ہیں،کا کہنا ہے کہ ماضی میں، اختیارات عام طور پر مختلف پارٹیوں کے دھڑوں کے درمیان بٹتے تھے ، مگر یہ شاید پہلی بار ہے کہ جب پوری طاقت شی پنگ نے اپنے ہاتھوں میں مرکوز کی ہے۔ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے علاوہ، شی اب چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری، پی ایس سی اور پولیٹ بیورو دونوں کے سربراہ، چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین، اور عوامی جمہوریہ چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ تکنیکی طور پر یہ ایک ہی نام کے دو دفاتر ہیں۔ اگلے پانچ سالوں میں پارٹی کے اندر وہ اب اپنے سیاسی اور معاشی نظریہ کو وہ بہت آسانی کے ساتھ آگے بڑھاسکیں گے۔ دیگر تقرریوں میں، وزیر خارجہ وانگ یی (69) کو پولٹ بیورو میں ترقی دی گئی، جس کا مطلب ہے کہ وہ ریٹائر ہونے والے یانگ جیچی سے عہدہ سنبھالیں گے، جو اس وقت سنٹرل فارن افیئر کمیشن کے جنرل آفس کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ چینی ڈپلومیسی کا سب سے اونچا عہدہ ہے۔ وزیر خارجہ ان کو ہی رپورٹ کرتا ہے۔ امریکہ میں موجودہ سفیر کن گینگ کو سنٹرل کمیٹی کا ممبر بناکر ترقی دی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب اگلے سال مارچ سے ملک کے نئے وزیر خارجہ ہونگے اور اسی کے ساتھ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات پر بات چیت کے لیے خصوصی نمائندے کا عہدہ بھی سنبھالیں گے۔ پولٹ بیورو میں ایک اور تقرری لیو ہائیکسنگ کی ہے ، جو معاون وزیر خارجہ تھے اور یورپی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ روس یوکرین جنگ اور یورپ پر سفارتی توجہ کے تناظر میں یہ ایک اہم تقرری ہے۔ اسی کے ساتھ جنرل ہی ویڈونگ (65) کو سینٹرل ملٹری کمیشن کا نیا نائب چیئرمین نامزد کیا گیاہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں سخت تناؤ کے دوران بھارت کی سرحد سے متصل مغربی تھیٹر کمانڈ میں فوج کی قیادت کرنے کیلئے یہ صلہ ملا ہے۔پولٹ بیورو میں کسی بھی خاتون کی عدم موجودگی اور نائب وزیر اعظم ہو چنہوا، سنکیانگ ریجن میں کمیو نسٹ پارٹی کے سابق سیکرٹری چن کوانگو ا، لی کی چیانگ اور وانگ یانگ جیسے اعتدال پسند چہروں کے اخراج نے سبھی کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ لی اور وانگ کو اپنی کم عمری کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ اداروں میں لمبی اننگز کھیلنے کے لیے سمجھا جاتا تھا۔ دونوں نے کمیونسٹ یوتھ لیگ میں خدمات انجام دی تھیں، جو ایک زمانے میں ایک بااثر گروپ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سپر کیبنٹ یا پی ایس سی نے نئے اراکین میں سب سے اہم تقرری شی جی پنگ کے 60 سالہ پرائیویٹ سیکرٹری ڈنگ زوکسیانگ کی ہے ۔ وہ اس وقت پولٹ بیورو کے سب سے کم عمر ممبر ہیں۔ ان کو ایک گیٹ کیپر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ شی سے ملاقات سے قبل کسی کو بھی ڈنگ کی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا تھا - وہ اسوقت مرکزی کمیٹی کے طاقتور ترین جنرل آفس کے سربراہ ہیں، جو اعلی قیادت کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اگرچہ، درجہ کے لحاظ سے وہ چھٹے نمبر پرہیں، مگر بتایا جاتا ہے کہ مستقبل میں بیجنگ میں اقتدار کی راہداریوں میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں، جن کے اوپر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ وہ مستقبل میں چین میں کوئی اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور شاید عنقریب میں ہی شی کے جانشین کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ 2012 میں وہ 18ویں پارٹی کانگریس میں شنگھائی میونسپل پارٹی کمیٹی کی سیاسی اور قانونی کمیٹی کے سیکرٹری بنائے گئے تھے اور مرکزی کمیٹی کے لیے منتخب ہوئے۔ اسی طرح 63 سالہ لی کیانگ، جنہوں نے زرعی مکینکس کے ساتھ ساتھ سماجیات کی تعلیم بھی حاصل کی ہے، کو بھی چینی سیاست میں ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شنگھائی میں لاک ڈاؤن نے ان کی شبیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ نہ صرف پی ایس سی کے دوبارہ ممبر منتخب ہوئے ہیں، بلکہ ان کو وزیر اعظم کیلئے بھی نامزد کیا گیا ہے۔ وہ مارچ 2023 میں عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔65سالہ ڑاؤ لیجی پی ایس سی کے تیسرے نمبر کے رکن ہیں اور ان کے مارچ 2023 میں پی ایس سی کے چیئرمین بننے کی امید ہے۔ وہ 2017 سے ہی اس اعلیٰ ادارے کے رکن ہیں۔ وہ مرکزی کمیشن برائے نظم و ضبط کے سیکرٹری بھی ہیں۔ وہ پارٹی کے سب سے اعلیٰ داخلی کنٹرول ادارے جسے شی نے بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا تھا، کی سربراہی کرتے ہیں۔ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں پارٹی اور حکومت کے 400اعلیٰ عہدیداروں کو سخت سزائیں دیکرکرپشن کے خلاف ایک طرح سے اعلان جنگ کیا ہوا تھا۔ 67سالہ وانگ ہننگ بھی 2017 سے پی ایس سی کے رکن تھے۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی کے چیف نظریہ ساز کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کا پالیسی اور فیصلہ سازی پر خاصا اثر و رسوخ رہا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اگلے پانچ سال تک چونکہ فیصلہ سازی کا کلی اختیار شی کے پاس رہیگا، اس کا مطلب ہے کہ فیصلے زیادہ تیزی کے ساتھ ہونگے ۔ مگر اگر ان فیصلوں میں غلطی ہوتی ہے،تو اس کو ٹھیک کرنے کا کوئی نظاوضع نہیں ہے۔ چونکہ یہ فیصلے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، اس لئے شاید مغربی ممالک یہ خدشات بجا ہیں کہ کہیں شی پاور مرکو زکرکے روسی صدر ولادیمیر پوتن کا رویہ نہ اختیار کریں۔ جنہوں نے یوکرین پر فوج کشی کرکے اس وقت مغربی دنیا کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ چین میں روایتی طور پر پارٹی اور حکومت کے اندر لیڈرشپ کو سخت احتساب کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ گو کہ فیصلہ سازی کے عمل کی خبریں باہر نہیں آتی ہیں، مگر اس پر خاصا بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور صدر یا پارٹی سربراہ کو دیگر لیڈران کو قائل کرنے میں دانتوں پسینہ آتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شی نے اس چیک اور بیلینس سسٹم کو کمزور کردیا ہے۔ مگر شاید شی کو چین کو فوجی فیلڈ اور ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں امریکہ کی برابری کرنے کی سخت جلدی ہے۔ اس لئے وہ کوئی اہم ٖ اور سخت فیصلے کرنا چاہتے ہیں، جو اسی صورت میں ممکن ہیں، جب ان کی اندر سے مخالفت نہ ہو اور پوری لیڈرشپ اسکے حق میں ہو۔ اس خدشہ کا سد باب کرنے کیلئے امریکہ نے چین کے خلاف مختلف بہانو ں کو لیکر کئی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے، جس میں سب سے اہم چین کو سیمی کنڈکٹرز کی فراہمی روکنا ہوگا۔ امریکی کمپنیوں کیلئے چین سیمی کنڈکٹرز کی سب سے بڑی منڈی تھی۔ یہ کنڈکٹرز جدید خود کار ہتھیاروں، روبوٹ ، سپر کمپوٹرز اور دیگر اعلیٰ تکنیکی اشیاء کے بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مختصر مدت کیلئے شاید چین کی ترقی کی رفتار تھم تو سکتی ہے، مگر ماہرین کے مطابق اس کو روکنا مشکل ہے۔ ان سیمی کنڈکٹرز کو بنانے کیلئے نایاب زمینی معدنیات یعنی Rare Earth Minirals کا 80فیصد مارکیٹ چین کے پاس ہے۔ افغانستان میں بھی اس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں، جو چین کی دہلیز پر ہی ہے۔ ماضی میں جب بھی چین پر پابندیا ں لگی ہیں، تو اس نے وہ اشیا خود ہی بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ شاید اسی لئے اس 20 ویں کانگریس نے نئی لیڈرشپ میں انجینئرنگ بیک گراونڈ والے افراد کو کلیدی ذمہ داریاں دی ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ملٹری کی جدید کاری اور تکنیکی ترقی پر شی کی پوری توجہ مرکوز ہوگی، تاکہ چین کو دنیا میں تکنیکی اعتبار سے بھی امریکہ کے ایک معتبر متبادل کے بطور پیش کیا جاسکے۔