تھل کے ضلع کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والے چار مزدوروں کو تھانہ تربت بلوچستان میں بیدردی سے قتل کر دیا گیا، بلوچستان میں دو ہفتوں کے دوران یہ دہشت گردی کا یہ دوسرا واقعہ ہے، اس سے پہلے 14اکتوبر کو تربت بلوچستان ہی میں 6 مزدوروں کو بیدردی سے قتل کر کے لاشیں بھیجی گئیں، ان واقعات سے پورے وسیب میں سوگ کا سماں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مزدور سرکاری عمارت کی تعمیر میں مزدوری کر رہے تھے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ وسیب کے مزدور اگر تھانے میں بھی قتل کر دئیے جائیں تو پھر بتایا جائے کہ وہ کہاں جائیں؟ سرائیکی مزدوروں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ قتل عام سالہا سال سے مسلسل ہورہا ہے، تربت کا ضلع کیچ ہے، اسی ایک ضلع میں اپریل2015ء میں تربت کے علاقہ گوگدان میں مزدوروں کے ایک کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے وسیب کے بیس مزدور قتل کر دئیے تھے، اسی ضلع میں جولائی 2012ء میں اٹھارہ افراد اور نومبر2017ء میں ایران کی سرحد کے قریب پندرہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے۔ گزشتہ روز ان چار مزدور شہدائے کی میتیں بستی گاڈی والا موضع بیٹ قائم ضلع کوٹ ادو پہنچیں تو ہر طرف کہرام تھا، ایک نوجوان کی چند ماہ قبل شادی ہوئی تھی، شہید ہونے والے نوجوانوں کا تعلق چانڈیہ برادری سے بتایا گیا ہے۔ لوگ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے کہ ہم کب تک لاشیں اٹھائیں؟ واقعات بیان کرتے ہوئے مقتول کے رشتہ دار نے بتایا کہ بلوچستان میں دہشت گرد پنجاب کے نام پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ سرائیکی وسیب پسماندہ ہے حالانکہ یہ خطہ زرعی دولت سے مالا مال ہے، اناج کی کمی نہیں ہے، افرادی قوت بھی بہت ہے ، یہ خطہ بلوچستان تو کیا افغانستان کو بھی اناج اور خوراک مہیا کرتاہے اور اس خطے نے ایران سے آنے والے بلوچوں کو اپنے وسیب میں پناہ دی ، ابھی کل کی بات ہے کہ موجودہ نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور ان کے قبیلے کا جب جھگڑا ہوا تو ان کو بھی ملتان میں پناہ ملی مگر آج وزیر داخلہ کی طرح وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، چیئرمین سینیٹ بھی بلوچستان سے ہیں اور سب سے بڑھ کر چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اس کے باوجود غریب مزدور مارے جا رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، آج تک کسی واقعے کی تحقیقات سامنے نہیں آئیں، کسی ملزم کو سزا تو کیا گرفتار بھی نہیں کیا جا سکا، ہر واقعے کے بعد کالعدم بلوچ لبریشن آرمی ذمہ داری قبول کرتی ہے مگر کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ وسیب کے مزدوروں کے قتل پر بلوچستان حکومت بھی خاموش ہو جاتی ہے، ورثاء کے لواحقین کی آج تک امداد نہیں کی گئی۔ پنجاب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان حکومت سے پوچھے کہ اس کے صوبے کے لوگ مسلسل کیوں قتل ہو رہے ہیں؟ مگر موجودہ حکومت سمیت کسی نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا، بلوچستان حکومت سے جواب طلبی تو درکنار کسی حکمران کو صرف تعزیت کی توفیق بھی نہیں ہوئی حالانکہ پچھلے دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شجاع آباد میں آئے اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے بلوچستان میں قتل ہونے والے مزدوروں کے ورثاء کو آگاہ کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ تعزیت کے لیے آئیں گے مگر وہ راہ تکتے رہ گئے۔ پنجاب حکومت کو چاہئے کہ وہ لواحقین کی مالی امداد کرے اور لواحقین کو سرکاری ملازمتیں دینے کے ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری لے۔ ان واقعات کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ وسیب کے کسی جاگیردار یا تمندار نے مظلوموں کی کبھی مدد نہیں کی، البتہ جہانگیر ترین نے شجاع آباد جا کر شہید ہونیوالے ورثاء کی مالی مدد کی، باقی سب خاموش ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر وسیب کے لوگوں کا اپنا صوبہ ہوتا تو وہ مسلسل پنجاب کے نام پر قتل نہ ہوتے، دوسری بات یہ کہ بلوچستان میں مزدوروں کے قتل کے جتنے واقعات ہوئے ہیں اگر کسی ایک واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزا ہو جاتی تو یہ سلسلہ رُک سکتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ واقعے کے بعد بھی ہر طرف خاموشی چھا جائے گی مگر ان سے پوچھئے جن کے لخت جگر بیدردی سے قتل کر دئیے گئے ، قتل ہونے والے نہ تو دہشت گرد تھے ، نہ ڈاکو ، نہ چور، نہ مجرم اور نہ ہی کسی سے ان کا لینا دینا تھا، وہ صرف اور صرف مزدور تھے، آج مزدور تنظیمیں بھی خاموش ہیں، آج انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے، آج بلوچستان کا کوئی قوم پرست بھی نہیں بول رہا ، اس سے بڑھ کر بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان واقعات کو ہمارا مورخ اور شاعر کیوں بیان نہیں کر رہا، ہم انہی کالموں میں درد مندی کے ساتھ لکھتے آ رہے ہیں کہ سرائیکی وسیب میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر لاہور میں کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہو جائے تو اسے قیامت سے تعبیر کر لیا جاتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ ، کابینہ اور اعلیٰ افسران اور پوری حکومتی مشینری متحرک ہو جاتی ہے اور اگر خدانخواستہ وسیب میں قیامت ہی کیوں نہ برپا ہو جائے لاہور دفاتر میں بیٹھے ہوئے افسران، کابینہ یا وزیراعلیٰ کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا کہ معمولی واقعات پر بھی سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتی ہے لیکن ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سرائیکی مزدوروں کے قتلِ عام پر عدالت عالیہ بھی خاموش ہے ، ہم نے دیکھا کہ میڈیا پر چھوٹے چھوٹے واقعات پر کئی کئی دنوں تک بحثوں کے سلسلے جاری رہتے ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ٹی وی چینلز چھوٹے چھوٹے واقعات کی لائیو کوریج کر رہے ہوتے ہیں اور ٹی وی اینکر چھوٹے چھوٹے واقعات پر کئی کئی گھنٹوں تک بول رہے ہوتے ہیں مگر وسیب کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے سب خاموش ہیں۔ ایک مثال دی جاتی ہے کہ فلاں سے بنگالیوں والا سلوک ہو رہا ہے ، سچ پوچھئے وسیب سے بنگالیوں سے بھی ازاں بد تر سلوک ہو رہاہے ۔ ہم نے دیکھا کہ بلوچستان میں مسنگ پرسنز کے مسئلے پر بلوچستان کے کچھ لوگوں نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، میرا سوال اتنا ہے کہ وسیب کے لوگ اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا ان کو انصاف ملے گا؟