فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان جنگ کی صورتِ حال سے پوری دنیا میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 1822میں فلسطین میں جو یہودی آباد تھے ان کی تعداد چوبیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ یہ تعداد ملک کی کْل آبادی سے دس فیصد سے بھی کم تھی۔ اس وقت ظلم و بربریت کی جو داستان رقم کی جارہی ہے اور بدلے میں عالمی طاقتوں کی بے حسی دیکھ کر ٹی ایس ایلیٹ کی نظم جو بارھویں جماعت کے نصاب کا حصہ تھی، یاد آگئی۔ دیکھیں اور غور کریں کہ کس طرح زندہ انسان ٹھنڈی لاشیں بن گئے اور غزہ کے بے گناہ جو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے وہ امر ہو گئے۔ کبھی وہ ستارے بن کر چمکا کریں گے۔ کبھی سْرخ گلاب بن کر مہکا کریں گے۔ چلیے قارئین ذرا نظم پڑھیے! ہم کھوکھلے انسان خس وخاشاک سے بھرے ہوئے تن ہمارے بالکل خالی سروں میں تنکے بھرے ہوئے ہیں افسوس ہے! افسوس! برف کی طرح منجمند ہوئی ہے ہمارے اندر کی صدا لفظ سارے بے معنی ہوئے ہیں اب تو سر گوشیوں سے بھی کوئی آواز نہیں ہے آتی شکلیں بھی ہماری ہوگئیں بے شکل ہر رنگ سے خالی ہوئے ہم بے رنگ منجمد ہوگئے ہیں ہم ایسے جیسے چوہے ٹوٹے شیشے پر چلتے ہیں شکل ہماری بے شکل ہوئی اور ہر رنگ سے خالی (غزہ کی) جو روحیں اس جہاں سے گزر کر موت کی وادی میں جا چکی ہیں وہ ہمیں زندہ روح کا درجہ نہیں دیتیں ان کی نظروں میں ہم ہیں ایسے کھوکھلے انسان ہیں جنہیں حنوط ہی رہنا ہے۔۔۔ ٹی ایس ایلیٹ اس نظم میں کہتا ہے کہ ہم طاقت تو رکھتے ہیں مگر اسے مظلوم کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ہم طاقت ور بس کمزوروں کو پیستے ہیں۔ ہماری کوئی شکل اور رنگ نہیں ہے۔ ہم تنکوں اور بْھوسے سے بنی ہوئی کٹھ پْتلیاں ہیں۔ فلسطین کی تاریخ دیکھیں تو مغرب ہی سے یہاں جدید صہیونیت کا ظہور ہوا۔ مختلف تحریکیں وجود میں آئیں۔ فلسطین کی بجائے اس خطے کو اسرائیل کے نام سے موسوم کرنا ایک سیاسی عزم کی غمازی تھی اور ہے۔ 1922 میں یہ علاقہ برطانیہ کے زیرِ تسلط آگیا۔ چونکہ فلسطین ایک ایسی سرزمین ہے جس کے ساتھ بے پناہ عقائد وابستہ ہیں۔ عرب فلسطینیوں کے نزدیک قرونِ وسطیٰ سے لے کر موجودہ دور تک فلسطین پر قبضے کرنے کے جتنے بھی منصوبے بنائے گئے ان میں صہیونیوں کے منصوبے سب سے زیادہ کامیاب رہے۔ ساتویں صدی کے آخر تک فلسطین عرب مسلم ملک تھا اور شام کا مغربی صوبہ۔ فلسطین زرخیز ترین زمینوں کا صوبہ ہے۔ یہ مضبوط ترین ایمانِ عالم کا قلب ہے۔ جہاں کی مائیں اپنے دودھ میں بیت المقدس کی محبت گوندھ کر پلاتی ہیں۔ جہاں کے باپ اپنے سینے اور خون میں آزادی اور ربّ اور رسولﷺ کی محبت ملا کر کمائی کھلاتے ہیں۔ ظلم کی داستان یہ ہے کہ 1948 کے موسم بہار کے اوائل میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ 1931 کی مردم شماری کے مطابق یہودیوں کی تعداد محض ایک لاکھ چوہتر ہزار تھی اور 1946 میں یہ تعداد چھے لاکھ آٹھ ہزار دو سو پچیس تک پہنچی۔ مقامی باشندے سبھی عربی بولتے تھے۔ ان کا پیشہ کاشت کاری تھا۔ فلسطین کے تمام بڑے بڑے شہر فلسطینی عربوں نے تعمیر کیے تھے۔ دانشور، شاعر اور پیشہ ور معزز طبقہ بھی وہیں موجود تھا۔ کارخانے اور صنعتیں بھی لگائی گئیں۔ معاشی، معاشرتی اور سماجی زندگی کی قومی تنظیم بھی بنی اور سامراج دشمنی کے خلاف بھی خطے میں چرچا ہوتا رہا۔ جنگِ عظیم اول کے بعد عظیم بیداری کی لہر تقریباً سبھی عربوں کی روحوں کو گرما رہی تھی۔ عرب لیگ آف عرب نیشنل لبریشن اور عرب ہائر جیسی کمیٹیوں کی سیاسی تنظیمیں ہی عوامی طبقات پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔ اس زمانے میں خلیل بید اس، نجیب نصر اور خلیل سکا کنی جیسے ادیب لکھاری اور دانش ور ابھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے ایک فلسطینی شناخت قائم کی جو صہیونیت سے درپیش خطرے کی مذمت کرتی تھی۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کو شروع شروع میں گول مول انداز میں پیش کیا گیا۔ تھیوڈر ہرزل، جو آسٹریا کا ہنگری نژاد شہری تھا، نے 1895 میں اپنے روز نامچے میں فلسطینیوں کے متعلق لکھا تھا: ’’ہمیں قلاش اور مفلس لوگوں کو ان کے اپنے ہی ملک میں ہر صورت میں ہر طرح کے روزگار کے ذرائع سے محروم کر دینا ہو گا تا کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے اس زمین کو چھوڑ کر سرحد پار دھکے کھاتے پھریں۔‘‘تھیوڈر ہرزل پیشے کے اعتبار سے صحافی تھا اور مشترکہ اتفاق رائے سے اْسے صہیونیت کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔1917میں برطانوی حکومت کے ساتھ خط و کتابت میں بتایا گیا کہ ہمیں بہت ہْشیاری، احتیاط اور طریقے سے ان قلاش لوگوں کی جائیدادیں ہتھیا کر انہیں ملک بدر کرنا ہو گا۔ فلسطین کی تشکیل نو کر کے اس ’’یہودی قوم کا وطن‘‘ بنانا ہو گا۔اس مقصد کے حصول کے لیے نہایت ظالمانہ اور سفاکانہ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ اسرائیل کا مشہور جرنیل موشے دایان اور سیاست دان اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کئی سال تک اسرائیل کا وزیرِ خارجہ رہا۔ اس نے انکشاف کیا تھا کہ یہودی مملکت قائم کرنے کے لیے کافی علاقوں سے زمینیں خریدیں۔ مفلسوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ دیہاتوں کو ، مکانات اور باغات کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ علاقے کو ویران، اجاڑ اور بیابان بنا دیا گیا۔ 1967 اور اس کے بعد کے برسوں میں مغربی کنارے پر غزہ کی پٹی بنا دی گئی۔ عربوں کے سات ہزار پانچ سو چون مکانات مسمار کر دیے گئے مگر تباہی وبربادی کی یہ داستان وہاں تک ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی غزہ کو ملیامیٹ کرکے ویران اور قبرستان بنا دیا گیا۔ فلسطین اور غزہ کی یہ کایا پلٹ اسرائیل کو مضبوط کرنے کے نتیجے میں کی جا رہی ہے۔ طاقت ور سامراجی قوتیں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ حماس کو قصور وار ٹھہرا رہی ہیں۔ (جاری ہے)