جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،،، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر کوئی لب کشائی کرنے کو بھی تیار نہیں۔ میں فیملی کے ہمراہ خبریں دیکھتا ہوں، تو میں منہ چھپاتا ہوں کہ میرے ملک میں حقیقت میں کیا ہو رہا ہے اور دکھایا کیا جا رہا ہے؟ سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے مقبول لیڈر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اُس سے شاید بھول چوک میں چند غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی مگر اُسے سزائیں دینے کا اور اُس کی کردار کشی کا جو سلسلہ جاری و ساری ہے وہ نہ تو تھم رہا ہے اور نہ کہیں مڑ رہا ہے۔ کہیں اُس کے حامی کارنر میٹنگ کرتے نظر آ جائیں تو دھر لیے جاتے ہیں۔ کہیں جلسے جلوس کی تھوڑی سی بھی بھنک پڑ جائے تو پولیس اور ادارے چکر لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ووٹر تو مایوس ہو ہی رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ملک کا دانشور طبقہ بھی مایوسی کے عالم میں انگشت بہ دنداں ہے۔ بلکہ یہ تمام صورتحال دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کرپشن‘ ناانصافی‘ ظلم اور زیادتی کی فضا کو چھوڑ کر کسی صحرا‘ جنگل یا پہاڑی وادی میں پناہ لے لی جائے۔ نہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں‘ نہ سنیں اور نہ ہم سے کوئی بات کرے اور نہ ہم کسی سے رابطہ کریں۔ بہرحال الیکشن تو ہو رہے ہیں، اور مخصوص پارٹیوں کے لیے میدان بھی صاف کر دیا گیا ہے، رہی سہی کسر حالیہ عدالتی فیصلوں نے کر دی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ اپنے آپ کو عادت ڈالنی چاہیے کہ ووٹ ضرور کاسٹ کریں، کیوں کہ دنیا بھر میں قوموں نے اگر ترقی کی ہے تو وہ صرف ووٹ کے صحیح استعمال کے باعث کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ووٹر گھر سے نہیں نکلتا ۔ اُس کی وجہ شاید یہاں کے سیاسی حالات ہیں۔ سب کو علم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ یعنی گزشتہ انتخابات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اوور آل ٹرن آئوٹ 50فیصد رہا۔ بلوچستان ووٹر ٹرن آئوٹ کے حوالے سے سب سے پیچھے رہا ہے۔دوہزار 18 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 55 فیصد رہا۔ سب سے زیادہ 62 فیصد ٹرن آؤٹ اسلام آباد کا تھا، جہاں 3 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوا۔ دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔ 60 فیصد ووٹرز نے اپنا حق استعمال کیا جو 2 کروڑ، 87 لاکھ، 60 ہزار 265 بنتے ہیں۔ سندھ میں یہ تناسب 54 فیصد رہا، ووٹوں کی تعداد 97 لاکھ 82 ہزار 599 تھی۔خیبر پختونخواہ میں 45 فیصد رہا، جہاں 54 لاکھ 76 ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بلوچستان میں ٹرن آؤٹ 42.5 فیصد رہا اور 13 لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ فاٹا میں 5 لاکھ 8 ہزار لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ تناسب 36 فیصد بنتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا بھر میںانتخابات کا ٹرن آئوٹ اگر دیکھا جائے تو بیشتر یورپی ممالک میں ووٹر ٹرن آئوٹ 70فیصد سے زائد رہتا ہے۔ اور حالیہ سالوںمیں ہونے والے عام انتخابات جن ملکوں میں ہوئے ان میں ترکی ، ملائشیا، میکسیکو وغیرہ شامل ہیں وہاں کا ٹرن آئوٹ حوصلہ افزاء رہا اور نتائج بھی بہترین میسر آئے۔ دنیا بھر میں ووٹرز کو ’’پکڑنے ‘‘ اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو بھاری جرمانے، قید یا دونوں سزائیںبیک وقت دی جاتی ہیںلیکن ہمیں ان ممالک کے نقوشِ قدم پر نہیں چلنا۔ ہمیں ان لوگوں کو بھی ووٹ ڈالنے پر مائل اور قائل کرنا چاہیے جو کندھے اُچکا کر کہتے ہیں: ہم توووٹ کسی کو بھی نہیں دیں گے،اِس روئیے اور سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔ جو شخص ووٹ نہیں ڈالتا، وہ اپنا قومی تشخص بھی کھو دیتا ہے۔ ابراہام لنکن نے خوبصورت بات کہی تھی: جو شہری ووٹ نہیں ڈالتا،اُسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ منتخب حکومت پر تنقید کرے۔ آپ ڈنمارک، کروشیا اور ناروے جیسے ملکوں کی مثال لے لیں وہاں جو لوگ ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ان کی فہرستیں مرتب کی جاتیں ہیں۔ وہ لوگ بینکوں سے قرضے نہیں لے سکتے، انہیں حکومتی سہولیات نہیں دی جاتیں اور ان کے لیے بہت سی مشکلات جان بوجھ کر پیدا کر دی جاتی ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں لازمی اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ اسی سلسلے میں ووٹرز کو سہولیات دی جاتی ہیں۔ مثلاََ جرمنی میں پارلیمانی انتخابات میں ووٹرز کو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے الیکشن کی مختص شدہ تاریخ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنی سہولت کے حساب سے جرمن باشندے الیکشن سے ہفتوں پہلے بھی ووٹنگ دفاتر میں جاکر اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔جس دن الیکشن ہو، آپ اُس دن ملک سے باہر ہیں یا کسی اور وجہ سے آپ الیکشن کے دن ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ ایسی صورت میں آپ کا ووٹ ضائع ہونے سے بچایا جانا چاہیے۔ جرمنی میں ہر ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے اور ووٹرز بھی اپنے اس جمہوری حق کا پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی آزادی رائے کا گلا گھونٹا گیا ہے، ڈر اور خوف کی فضا طاری ہوئی ہے‘ انتخابات میں مداخلت اور جانبداری کے اثرات ملے ہیں‘ وہاں سچائی اور انصاف کو صرف ایک ہی رُخ میں چلتے دیکھا ہے یعنی طاقت کے مراکز کی طرف۔ بہرکیف اگر اس ووٹ کی اہمیت کا اندازہ پاکستان میں ہو جائے تو یقینا یہاں بھی خوشحالی آسکتی ہے۔ اس وقت جنرل الیکشن کے لیے ملک کے اہل ووٹروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے، جن کی عمریں 18 اور 35 سال کے درمیان ہیں، جن کی تعداد سب سے زیادہ 44فیصد ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 11 ستمبر، 2023 تک رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 75 لاکھ، 27 ہزار، 87 ہے۔ ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ، 87 لاکھ، 40 ہزار، 453 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ، 87 لاکھ، 86 ہزار، 634 ہے۔ لہٰذاحالات جیسے بھی ہوں ووٹ ضرور کاسٹ کرنے جائیں اسی سے شفاف قیادت میسر آسکتی ہے۔ لہٰذااداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ووٹر کا اعتماد بحال کرے۔اور ان 12 کروڑ ووٹوں میں 44فیصد نوجوانوں کے ووٹ ہیں ،جن کی تعداد ساڑھے 5کروڑ سے زیادہ ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اب اپنے ووٹ کی قوت سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتی ہے۔ اسے مایوس ہونے سے بچایا جائے۔ کیوں کہ انہوں نے ہی مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے۔ اس لیے بہتر مستقبل لیے ایسے حالات میں بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ووٹ کاسٹ کرنے ضرور جائیں!