فون پہ بات ہوئی،ملاقات کا وقت بھی طے ہوا۔بات اتنی تھی کہ لوگوں کے ماضی اور ذہنوںمیں دو دہائیوں تک ہلچل مچائے رکھنے والی اس محترمہ نے اپنی خود نوِشت تحریر کی، جس کی اشاعت کا بندوبست درکار ہے۔محترمہ عظمیٰ مسعود اور پروفیسر زریں حبیب کے احترام میں مَیں کسی مناسب پبلشر کی بابت سوچنے لگا۔ پھر معلوم ہوا کہ کتاب کا قرعہ بک کارنر جہلم کے نام نکل چکا ہے۔ خوشی ہوئی کہ کتاب اچھے پبلشرز کے پاس پہنچ گئی، دعا بھی کہ اللہ کرے ان کے ساتھ بھی اچھا ہی معاملہ ہو۔ پھر کتاب چھپنے کی خبریں آئیں،اچھے گیٹ اپ کے ساتھ چھپی کتاب محترمہ کے دستخطوں کے ساتھ مجھ تک پہنچ بھی گئی۔ پہلے تو سرِ ورق پہ لگی تصویر سے یادداشت نے تیس چونتیس سال پیچھے کی طرف زقند بھری۔ کتاب کے اندر کی صورتِ حال سے متعلق میرا پہلا تأثر یہی تھا کہ میڈیا پہ لوگوں کی توجہ کا فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی روزنامچہ ہوگا،جسے کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ دوسرا تأثر یہ کہ ان سے چند انٹرویو لے کے ادب کے کسی ’خدمت گار‘ نے یہ مشقت انجام دی ہوگی کیونکہ دنیائے ادب میں آپ بیتی کی کئی قسمیں دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ بعض’عظیم‘ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیںکہ خدّامِ ادب، کان پہ قلم رکھے ہمہ وقت جن کے سرہانے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک روز اچانک ان کی بغل سے ’صاحب‘ یا ’صاحبہ‘ کی آپ بیتی برآمد ہو جاتی ہے، جو اتفاق سے عین مین اعلیٰ حضرت کی توقع اور مزاج کے مطابق نکلتی ہے۔ اس کے بدلے میں منشیانِ ادب بڑا نام یا انعام بھی پاتے ہیں۔ حکیم جی ایسی آپ بیتی کو ’خود بخود نوشت‘ کے نام سے یاد فرماتے ہیں۔ پھر خدا خدا کر کے کتاب میں موجود پانچ درجن رنگا رنگ تصاویر سے ’مطالعے‘ کا آغاز کر دیا کیونکہ حکیم جی کا قول ہے کہ بندہ خوبصورت ہو تو تصویر، تحریر سے زیادہ بولتی ہے۔ اس نگار خانے میں باپ کی گود میں بیٹھی ننھی ماہ پارہ سے لے کے نواسے نواسیوں کے ساتھ تفریحکرتی نانی ماہ پارہ تک کا سفر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ بیچ میں بھٹو دور کی بَیل باٹم والی ایم اے انگلش کی طالبہ سے ملاقات بھی ہوئی، جنرل ضیا کے خوشگوار موڈ کا ساتھ دیتی معروف براڈ کاسٹر سے بھی سامنا ہوا۔ سکول کالج کے مشاعرے پڑھتی نوخیز شاعرہ پہ بھی نظر پڑی، پنجاب یونیورسٹی کے زمانۂ طالب علمی میں کیرئر تراشتی اور ریڈیو، ٹی وی کے شوق میں لوگوں کی چہ میگوئیوں کا موضوع بنتی عفیفہ پہ بھی نظر ٹکتی رہی۔ لندن یونیورسٹی سے ڈگری وصول کرتی ایک باوقار خاتون بھی دکھائی دی۔شوبز کی دنیا میں سکینڈلز کی زَد میں آتی سلیبرٹی کی خبر بھی ملی،پسند کی شادی کا قصہ بھی ہے ۔اس داستانِ حیات میں چھے بہنوں والے خاندان سے مسلسل رابطے بحال کرتی ایک گھریلو عورت کا تجربہ بھی بولتا رہا اور مختلف شاعروں،ادیبوں،فنکاروں سے متعلق ان کی گفتگو اور جستجو بھی دھیان گمان سے گزری۔ اصل کمال یہ ہوا کہ تصاویر کے اُفق سے تحریر کے عُمق کا بخوبی اندازہ ہو گیا اور ہم نے اگلے چند دنوں میں پونے پانچ صد صفحات پر مشتمل کتاب سُڑک ڈالی۔ اچھے ناول،کڑک افسانے، شستہ مزاح کے ساتھ ساتھ ہر قبیل کی آپ بیتی ہمیشہ میرے سرہانے دھری رہتی ہے۔ وہ جوش کی ’شہوانع عمری‘ ہو یا شہاب کی ’رپورٹ پٹواری مفصل‘ (بقول احمد بشیر) یوسفی کی ’سوانح نو عمری‘ ہو ، ایوب خاں کا بیانِ صفائی ہو یا پرویز مشرف کی ڈھٹائی، کشور ناہید کی ’بری عورت کی کتھا ہو یاتہمینہ درانی کی برے مرد کی سمفنی، ہر طرح کی آپ بیتی سے مَیں نے ہمیشہ ایک نئی طرح کا حظ کشید کیا۔ جب ماہ پاہ کی ’میرا زمانہ، میری کہانی‘ کو حرف حرف پڑھا تو یقین نہیں آیا کہ مواد اور سواد کے اعتبار سے اتنی متوازن اور دلچسپ خود نوشت بظاہر شو پیس نظر آنے والی اس نازک اندام حسینہ کے قلم سے ٹپکی ہے۔مشہور ہے کہ جب کرنل محمد خاں کی ’بجنگ آمد‘ نے ادبی حلقوں میں دھوم مچائی تو اسلام آباد کے کسی بڑے ہوٹل میں اس کی تقریبِ پذیرائی منعقد کی گئی۔کتاب میں جنگِ عظیم کی داستانوںاور قدم قدم دل پھینکتی داشتاؤں کی تصویر کاری کرتا ہیرو ، دُبلے پتلے، سُوکھے سانولے کرنل سے مَیچ نہیں کرتا تھا۔ کرنل صاحب نے خود لکھا ہے کہ جب مَیں سیکرٹری کے بلانے پر سٹیج کی طرف جانے لگا تو ہال میں سے آواز آئی: ’’ہا ہائے اینی سوہنی کتاب ایس کُگھو نے لِکھی اے؟‘‘ ’میرا زمانہ، میری کہانی‘ کے مطالعے کے بعد بھی پہلا تأثر یہی ذہن میں اُبھرتا ہے کہ ’اینی سوہنی کتاب ایس فاختہ نے لکھی اے۔‘یقین کریں نہایت عرق ریزی، دیدہ دلیری اور دلبری کے ساتھ لکھی گئی خود نوشت ہے۔ ذاتی حالات اور بین التہذیبی تناظر کے ساتھ ساتھ تاریخ، سیاست، سماج، شوبز اور ادب، اِس کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ یوں سمجھیں اس کتاب میں ایک عہد زندہ ہو گیا ہے۔اس کتاب سے گزشتہ نصف صدی کی علمی، فلمی، سیاسی کڑیاں مکمل ہو گئی ہیں۔ فلمی دنیا کے چاند دلیپ کمار،سائرہ بانو،امیتابھ، شاہ رُخ، علی زیب، بنگالی ہدایتکار احتشام کی فلم چکوری اور بیٹی فرزانہ سے کیریئر کا آغاز کرنے والے ندیم، قوی، بابا چشتی، شوکت حسین رضوی، جس کی نور جہاں سے شادی کے بعدمنٹو نے لکھا تھا کہ رضوی صاحب کے فلیٹ میں جس فرنیچر کی کمی تھی، وہ پوری ہو گئی۔ اسی طرح شمیم آرا، صبیحہ خانم، سوہنی دھرتی اللہ رکھے والے مسرور انور، ماہ پارہ کے رشتہ اور کرایہ فیلو منور سعید، غزل گائیکی کو نقطۂ عروج تک لے جانے والی فریدہ خانم، لتا منگیشکر کی ہم قافیہ ثریا ملتانیکر، شہنشاہِ غزل مہدی حسن، غلام علی، زنانہ مردانہ نام اور کاموں والی الطاف فاطمہ، انتظار حسین، شاعرِ انقلاب حبیب جالب،منصورہ کے ابا احمد ندیم قاسمی، پبلشرز سے رنجیدہ منیر نیازی، خوش لباس و خوش کلام پروین شاکر سے یادگار ملاقاتیں بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ سیاست میں مشرقی پاکستان سے لمحۂ موجود تک کی کہانی، ایوب، یحیٰ ،مجیب، بھٹو، ضیا، بے نظیر، نواز، مشرف، شجاعت، گیلانی، زرداری، عمران خان، بگٹی، تک کی کارکردگیوں اور کارستانیوں کی نہایت متوازن رائے اور ایک سچے کھرے پاکستانی کے درد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح لاہور، لندن، ایران، مصر، شام ،عراق کے ساتھ ساتھ اپنے بچپنے کے شہر سرگودھا کو جس محبت سے یاد کیا ہے، شاید ہی کوئی اپنے محبوب کو یاد کرتا ہوگا۔اوجڑی کیمپ، ملائشیا اور کشمیر کے زلزلے، لڑکیوں کی جنسی اور مذہبی تعلیم، برطانوی شاہی خاندان، قائدِ اعظم کے خادم کی حالتِ زار، احمدی نژاد کی انفرادیت، ایرانی عورت کے مسائل،توازن اور سلیقے کے ساتھ ادا ہو گئے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ایک جملے میں شخصیت اور عہد کی روح کھینچ لیتی ہیں۔ کتاب کے آخر میں مصنفہ کی شاعری بھی درج ہے، جس کے بعض اشعار میں سراب میںخواب بُنتا وہ چاند کا ٹکڑا بھی سامنے آ جاتا ہے: چودھویں کی رات تھی اور جھیل میں اُترا تھا چاند چاندنی نکھری پڑی تھی جھیل میں ڈھلنے کے بعد چاندنی راتوں میں ماہ پارہ رنگ بھی ہم نے بانٹے تھے خواب دریچے کھول دیے جب، تب وہ خوشبو پھیلی تھی ہم لوگ ایسی اونچی فصیلوں میں قید ہیں مٹی کے جسم ، جھوٹی اناؤں میں قید ہیں کتنے نازک ہیں بدن شیشے کے سرد حدت سے پگھل جاتے ہیں