مجھے نہیں معلوم جہانیاں کے چک 110آر کے مزدور پر کیا گزری ہوگی، چار سو روپے کے دیہاڑی دارنے جب کسی نیوز چینل پر سنا ہوگا یا کسی اخبار کی سرخی نے اسے حاکم وقت کا یہ فرمان پہنچایا ہوگا کہ بل تو دینا ہوگا ۔۔۔تو مدقوق چہرے والے قاسم کے دل پر کیا گزری ہوگی ،پتلا دبلا قاسم اپنے چار بچوں اور ادھڑے پلستر کی دیواروں کے گھر میں تنگ دستی ، بھوک،پریشانیوں اور سوالیہ نشان بنے مستقبل کے ساتھ جی رہا ہے۔ قاسم کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر صرف دو ماہ ہے اور وہ بدقسمت نہیں جانتا کہ اس پر کیا قیامت گزرچکی ہے وہ بدقسمت شیر خوارتو آس پاس پھیلے افلاس سے بے خبر ماں کی گود میں پڑا رہتا تھا ، قاسم چار سو روپے کا دیہاڑی دار ملازم ہے جس دن چھٹی ہوتی ہے یہ چار سو روپے بھی نہیں ملتے ،اس کسمپرسی میں وہ سسک سسک کرجی رہا تھا اسکی ساری تگ و دوچولہا جلانے تک تھی اس سے زیادہ سوچنے کی عیاشی اس کے بس سے باہر تھی جہانیاں کے اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں زندگی جہنم بن چکی تھی اور اس جہنم کی حدت میں ایک کاغذ کے ٹکڑے نے مزید اضافہ کردیا یہ ملتان الیکڑک سپلائی کارپوریشن کا بجلی کا بل تھاجو اس پر بجلی بن کر گرا،میپکو کا بارہ ہزار روپے کمانے والے قاسم کو حکم تھا کہ وہ بجلی کے بل کی صورت میں دس ہزار روپے ملکی خزانے میںجمع کرائے،بل دیکھ کر قاسم کے ہوش اڑ گئے وہ میپکو کے دفتر گیا کہ صاحب ! یہ بل دیکھیں میرے ٹوٹے پھوٹے گھر میں تو دو بلب، پنکھے اور پانی کی موٹر کے سوا ہے ہی کیا لیکن افسر بابو نے وہی کہا جو حاکم وقت نے سینئر صحافیوں کے ساتھ ٹھنڈے ٹھا ر ہال میں حال احوال کرتے ہوئے کہا تھاکہ مہنگائی ہے لیکن بل تو دینا ہوگا۔ قاسم بل جمع نہ کراسکا میپکو کے فرض شناس اہلکاروں نے اسکی بجلی منقطع کرکے ملکی خزانے کو بڑے نقصان سے بچا لیا،اب اگست کی چلچلاتی دھوپ تھی اور قاسم کے روتے بلکتے بچے تھے، قاسم نے گھر کا بچا کھچا سامان بیچا جانے کہاں کہاں سے قرض ادھار لے کر یہ رقم جوڑی اور درجن بھر ٹیکسز ،سرچارج ، ٹی وی فیس کے ساتھ بجلی کا بل جمع کرادیا اس کے باوجود اس کے گھر بجلی نہیں آئی کیسے آتی قاسم جیسے بے وسیلوں کو کوئی چیز وقت پر نہیں ملتی ، قاسم نے بجلی والوں کے دفتروں کے کئی چکر لگائے، قاسم جاتا منتیں سماجتیں کراتا، جمع کرایا گیا بل دکھاتا اور کلرک بابو سے تسلی دلاسے لے کر واپس آجاتاگھر میں پہلے ہی پریشانیاں تھیں ، بھوک سے بلبلاتے بچے ماں سے چمٹے رہتے اور وہ بے بسی کی تصویر بنے انہیں دیکھتی رہتی لیکن کب تک اس نے ایک بڑا فیصلہ کیا ،وہ دو روز کے فاقوں سے روتے بچوں کو کھانا تو نہ دے سکی لیکن زہریلی گولیاں کھا کر اٹھائیس اگست کو حاکم وقت کے لئے یہ سوال چھوڑ گئی کہ صاحب بہادر! میرے شوہر نے تو گھر کے برتن بیچ کر قرض ادھار لے کر بھی بجلی کا بل اداکردیا تھا اب بچوں کی بھوک کیسے مٹائیں۔۔۔! جس روزجہانیاں کی حمنہ نے زہریلی گولیاں کھا کر زندگی ختم کی اس روز فیصل آباد کا علاقے ڈجکوٹ کے صابری محلے میں پینتیس سالہ حمزہ نے کنپٹی پر پستول کی نال رکھی اور ٹرائیگر دبا کر زندگی کے وبال سے آزادی حاصل کرلی ،اخبارات کے مطابق حمزہ کے والد کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے جینا ویسے ہی دو بھر کیا ہوا ہے اوپر سے بجلی کا بل بھی چالیس ہزار روپے آگیا ، اس کا بیٹا جو پہلے ہی بہت پریشان تھا اس بل کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھا اوراس نے اپنی زندگی ختم کردی،اٹھائیس اگست کو ایک ہی دن میں دو شہریوں نے بجلی گردی پراحتجاج کرتے ہوئے جان دی،اس سے آگے چلئے یکم ستمبر کو فیصل آباد ہی کے نواحی علاقے چک67 ج ب کی صدیقیہ کالونی کے رہائشی تین بچوں کے باپ حسنین نے بھی یہی کیا ،آٹھ سو روپے کا دیہاڑی دار حسنین پہلے ہی حالات سے دلبرداشتہ تھااوپر سے بجلی کے بل نے اس کے اوسان خطا کر دیئے اور پھر حسنین نے بھی انتہائی قدم اٹھایا اور اپنے پیچھے تین بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر زندگی سے دور چلا گیاکہ اس مہنگائی سے لڑنا اس کے بس کی بات نہیں۔ بجلی کے بلوں سے لڑنا کسی کے بس کی بات نہیںملک میں آگ لگی ہوئی ہے ، ایوان وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچنے والی اس حدت نے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کو بھی سینئر صحافیوں اور میڈیا کے میزبانوں سے ملاقات کی ضرورت محسوس کرواہی دی ،اس ملاقات کا احوال باہر آیا ہے جس میں وزیر اعظم نے مہنگائی کا شدت اور حدت کا اعتراف تو کیا لیکن ان الفاظ کے ساتھ کہ’’مہنگائی ہے لیکن بل تو دینا ہوگا بل نہ دینا مسئلے کا حل نہیں ،بجلی کے بلوں کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے‘‘ مجھے نہیں علم کہ حسنین ، حمزہ اور حمنہ کی خودکشیوں کو میڈیا کن الفاظ میں بیان کرتا یا عوامی احتجاج سے کیسے ناپسندیدگی کا عنصردور کرتاکہ وزیر اعظم صاحب بہادر کی پیشانی پر شکن نہ آتی، وزیر اعظم صاحب اسی محفل میں یہ بھی فرمادیتے کہ خط غربت تلے سسکتی خلق خد ا یہ فریضہ کیسے سرانجام دے ؟ گھر کاسامان بیچے یا بہنوں بیٹیوں کے جہیز کے برتن یا پھرگردہ نیلام کرے ؟وزیر اعظم فرما دیتے تو حسنین اور حمزہ کے بچے یتیم ہوتے نہ حمنہ اپنے دو ماہ کے بیٹے کو چھوڑ کر موت کو گلے لگاتی ،سنتے ہیںنگراں وزیر اعظم صاحب کا تعلق کبھی مڈل کلا س یا اپر مڈل کلاس سے رہا ہے ، اس طبقے میں بھی افلاس دستک نہیں دے پاتا لیکن اشرافیہ کی نسبت انکی سماعت میں کبھی نہ کبھی غریبوں کی آہ وبکا پڑہی جاتی ہے، کاکڑ صاحب نے بھی یہ دکھڑے کہیں سن رکھے ہوں گے پھربھی وہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرگئے ۔۔۔یقینناً اشرافیہ کے آرام و سکون کی خاطر بلبلاتے ہوئے بل ہم نے ہی دینا ہے لیکن حضور! یہ زیادتی ہے آپ کا لہجہ دل دکھا گیا! ٭٭٭٭٭