جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو اس دوران الیکشن کمیشن نے 11 فروری 2024ء کو الیکشن کرانے کی تاریخ دیدی ہے ۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ،کے مصداق الیکشن کمیشن کی تاریخ آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 3 سے 5 دن فہرستوں میں لگیں گے اور پانچ دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی ، 5 دسمبر سے 54 دن گنے جائیں تو 29 جنوری بنتی ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 4 فروری کو پہلا اتوار بنتا ہے جبکہ دوسرا اتوار 11 فروری کو بنتا ہے ، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کرائے جائیں ، اس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو پابند کیا کہ تاریخ مزید آگے پیچھے نہ ہو۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت بجا اور درست ہے کہ الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کرے۔ چیف جسٹس کی یہ بات بھی برمحل اور بہترین ہے کہ آج ہم نے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو اکٹھا کر دیا ، کل کو سرخی نہ لگی ہو کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہو گیا۔ ملک کی سیاسی صورتحال کو دیکھ کر بہت شعر یاد آتے ہیں ، ایک شعر اس طرح ہے کہ ’’کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے ، ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے‘‘ میاں نواز شریف کے وزیر اعظم کے پروٹوکول کے ساتھ آمد پر ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘‘والا مصرعہ یاد آیا، اب بھی پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ تو ہے مگر نام کی حد تک اور خود پی ڈی ایم کا وجود بھی نہ ہونے کے برابر ہے کہ جب فیصلہ سازوں نے سب کو ایک طرف کر کے (ن )لیگ کو آگے کر دیا تو باقی سب کی حیثیت ثانوی ہو گئی، نواز شریف کی واپسی کے بعد اب سیاسی صورت حال یکسر تبدیل ہوئی ہے تو پی ڈی ایم سے ہونے والے وعدے وعید کی حیثیت وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کی سی نظر آتی ہے، جس طرح ن لیگ نے پیپلز پارٹی سے آنکھیں چار کی ہیں تو واضح طور پر راستے بھی جدا نظر آ رہے ہیں اور اتحاد والی بات رات گئی بات گئی والاقصہ نظر آتی ہے،پی ٹی آئی کی طرح اب پیپلز پارٹی بھی جلد الیکشن کا مطالبہ کرتی نظر آئی ہے اس حوالے سے اب دونوں جماعتیں ایک پیج پر نظر آ رہی ہیں ۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دئیے تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فریق کو اعتراض تو نہیں اگر عدالت فاروق نائیک کو اس کیس میں سنے ، وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہم فاروق نائیک کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ جس طرح عدالت میں جلد انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ایک ہو چکے ہیں ، آگے چل کر بھی یہی صورت حال نظر آ رہی ہے، ثبات صرف تغیر کو ہے، وقت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی ضرورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، کل آصف زرداری کہتے تھے کہ انتخابات اس وقت ہوں گے جب میں تاریخ دونگا مگر آج وہ خود تاریخ مانگ رہے تھے ، یہ ٹھیک ہے کہ آصف زرداری سیاست کے بے تاج بادشاہ ہوں گے مگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ہے، سرائیکی وسیب میں پی ٹی آئی کے علاوہ پی پی پی کے امیداروں سے بھی استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کی خبریں گرم ہیں۔ آصف زرداری نے کراچی میں گفتگو کے دوران کہا کہ سرائیکی صوبہ بن کر رہے گا یہ میرا وعدہ اور پیپلز پارٹی کا منشور ہے، دوسری طرف آصف زرداری سرائیکی وسیب کو اپنی سیاست کا محور و مرکز بنانا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو خصوصی ٹاسک دیدیا گیا ہے ، معلوم ہوا ہے کہ آصف زرداری نے ملتان میں اپنا گھر خرید لیا ہے جہاں بیٹھ کر وہ پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں سے ملاقاتیں کرینگے اور سوچ یہی ہے کہ سندھ کے ساتھ سرائیکی وسیب سے بھی پیپلز پارٹی کو سیٹیں مل جائیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ صوبے کا وعدہ پیپلز پارٹی کے منشور میں پہلے بھی شامل تھا، بہاولپورمیں ملاقات کے دوران میں نے آصف زرداری کو کہا تھا کہ وسیب کو صوبہ بھی چاہئے اور شناخت بھی ، آپ کہتے ہیں کہ صوبے کیلئے ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ، کیا پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کا نام تبدیل کرنے کے لیے بھی آپ کو دو تہائی اکثریت درکار ہے؟ جس پر آصف زرداری نے کہا تھا کہ ہم وسیب کو شناخت دیں گے مگر وہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ آج جس طرح پنجاب کے مزدور بلوچستان میں بیدردی سے قتل ہو رہے ہیں تو پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ ہر خطے کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے، وسیب کو بھی بے شناخت نہیں کرنا چاہئے۔ جہانگیر ترین نے جہانیاں سے جلسہ کر کے الیکشن مہم کا آغاز کیا ہے لیکن یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جنہوں نے صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں 100 دن میں صوبہ بنانے کے تحریری معاہدہ کے تحت ضم کرایا لیکن وہ آج کیوں خاموش ہیں؟ شفاف انتخابات کے لیے سہولت کاری کی پریکٹس ختم ہونی چاہئے ، موجودہ سیاسی منظر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ (ن) لیگ کو اقتدار میں آنے کا یقین دلا دیا گیا ہے ، اب جوڑ توڑ کا طریقہ کار تلاش کیا جا رہا ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ اگر شفاف الیکشن ہوں تو (ن) لیگ کے بہت سے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو سکتی ہیں اور جس طرح مینار پاکستان کا جلسہ بھرا گیا تو اس کی حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ صوبے کی حکومتی مشینری دارالحکومت سے لے کر ڈویژن ، ڈسٹرکٹ ، تحصیل ، ٹائون اور یونین کونسل تک استعمال ہوئی اور تحصیلداروں کے ذریعے پٹواریوں پر جو بوجھ پڑا اس کے قصے بھی ہر زبان زد عام ہیں، الیکشن کرانے نہ کرانے کی وجوہات رہی ہیں ، البتہ نہ صرف الیکشن ضروری ہیں بلکہ شفاف الیکشن کا انعقاد ملک و قوم کی بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔