کرکٹ وہ معشوق ہے جو ہم دل کے ماروں کو بار بار دھتکارتی اور ہم ہیں کہ اس کی گلی میں جائے بنا رہ نہیں پاتے۔ افغانستان سے شکست کے بعد طے کیا تھا کہ اب میچ نہیں دیکھنا۔ بنگلہ دیش کو ہرا کر ٹیم نے پھر گدگدی کر دی۔ ستم یہ کہ جنوبی افریقہ نے نیوزی لینڈ کو بڑے مارجن سے ہرا کر ہماری امیدوں کو جگا دیا۔ یہ تو خیر کوئی بڑے سے بڑا نجومی بھی نہیں بتا سکتا کہ پاکستان اپنا اگلا میچ جیتے یا ہار جائے گا لیکن کرکٹ ٹیم ہم پر بڑا ظلم کر رہی ہے ۔ دل جوڑنا‘ توڑنا اور پھر یہ جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہنا خوشیوں کو ترسے پاکستانیوں کے اعصاب توڑ رہا ہے۔ بہت سے دیگر مبصرین کے برعکس میں موجودہ کرکٹ ٹیم کو پوری طرح باصلاحیت اور دنیا کی پہلی چار ٹیموں میں سے ایک سمجھتا ہوں۔ اس ٹیم کی اکثریت ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو ماضی قریب میں اہم کامیابیاں سمیٹ چکی ہے اس ٹیم میں ایسے کھلاڑی ہیں جو اپنی انفرادی کارکردگی پر کئی بار دنیا بھر کے کرکٹ ماہرین سے داد پا چکے ہیں۔ رضوان‘ امام الحق ‘ شاہین آفریدی‘ فخر زماں اور خود کپتان بابر اعظم کی صلاحیت پر کسی کو شک نہیں۔ نئے کھلاڑی سعود شکیل اور عبداللہ شفیق بھی خود کو اہل ثابت کر رہے ہیں۔ افتخار دور حاصر کی کرکٹ میں سب سے بہتر پاکستانی بیٹر ہے۔ ان میں سے کوئی دو کھلاڑی ہر میچ میں پرفارم کر جائیں تو جیتنے کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ کوئی دو کھلاڑی بھی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں۔ پھر یہ کہ ساری ٹیم کی مشترکہ کارکردگی فیلڈنگ کی صورت میں نظر آتی ہے۔ فیلڈنگ پاکستان کی کمزوری رہی ہے۔کئی میچ اس وجہ سے ہارے کہ کیچ نہ لے سکے۔رن آئوٹ کے مواقع ضائع کئے یا بائونڈریز کو نہ روک سکے۔ ایک گزشتہ وی لاگ میں بتا چکا ہوں کہ با صلاحیت کھلاڑی ایک ٹیم اس وجہ سے نظر نہیں آ رہے کہ انہیں تقسیم کرنے کے کئی حربے سرگرم ہیں۔کرکٹ بورڈ سیاسی جماعتوں کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ ریلوے‘ پی آئی اے اسی طرح تباہ ہوئے۔ اب سیاست دان کرکٹ بورڈ کے پیچھے پڑے ذکا اشرف کی جگہ مسلم لیگ نواز نجم سیٹھی کو لانا چاہتی تھی۔ اس وقت پی ڈی ایم کی محبت باقی تھی۔ عشق کے ساتھ کچھ مجبوری بھی تھی اس لئے جناب آصف علی زرداری نے جب ذکا اشرف کے نام پر اصرار کیا تو نجم سیٹھی نے مٹھائی کے وہ سارے آرڈر واپس کر لئے جو چیئرمین مقرر ہونے کے بعد انہوں نے تقسیم کرنا تھی۔ مسلم لیگ ن کا کام نکل گیا ہے اس کی قیادت نے ایک بار پھر آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے اندر ان کے کئی لوگ اب تک موجود ہیں۔ ان اپنے لوگوں کی مدد سے پہلے کھلاڑیوں کے کنٹریکٹ میں تاخیر کی گئی‘ پھر کنٹریکٹ سائن میں تاخیر کا جواز بنا کر کھلاڑیوں کو تین ماہ سے تنخواہ نہ دی گئی۔ٹیم جب ورلڈ کپ میں شرکت کے لئے جا رہی تھی تو اس کی تنخواہیں روک کر کیا حوصلہ شکنی نہیں کی گئی؟ مسلم لیگ چاہتی ہے کہ ذکا اشرف کو اتنا گندا کر دیا جائے کہ وہ خود ہی استعفیٰ دیدیں۔ ورلڈ کپ میچز کے دوران دو حوالے سے کچھ لابیوں نے شدت کے ساتھ یہ مطالبات کئے کہ ذکا اشرف استعفیٰ دیدیں اور بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹایا جائے۔ بابر اعظم کو ہٹانے کی راہداری شاہین آفریدی کے توسط سے بنانے کی کوشش نظر آئی ہے۔ بابر کی فارم کا خراب ہونا ان پر تنققد کا جواز پیدا کر رہا ہے لیکن اس جواز میں ایک اضافہ انہیں انضمام الحق کے ساتھ ’’ایجنٹ کمیٹی‘‘ کے معاملے میں پھنسانے سے پیدا کیا جا رہا ہے۔ میں تو اسے بلیک میلنگ کہتا ہوں۔ ورلڈ کپ میچوں کے دوران ہمیشہ پاکستان ٹیم میں مسائل کا شکار کیوں ہوئی ہے۔ بابر وولمر کی موت اور پھر اس کے بعد اٹھنے والے سوال قالین کے پیچھے دبا دیے گئے۔ شاہد آفریدی بطور کپتان اکمل برادران کو کیوں بار بار بار موقع دیتے رہے۔عمر اکمل حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ملے اس ملاقات سے متعلق انہوں نے ایک سفارشی تاثر دینے کی کوشش کی۔ کامران اکمل اپنے کزن بابر اعظم کے متعلق کھل کر کبھی تعریفی جملے کیوں نہیں بولتے۔ اسے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بابر اعظم کے متعلق وہ مثبت رائے کیوں نہیں رکھتے۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ کراچی لابی کے نام پر کرکٹ کے کچھ ریٹائرڈ کھلاڑی پس پردہ کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔ بابر اعظم کے فون والا معاملہ راشد لطیف تک کیسے آیا۔ ان حالات میں ٹیم بے چاری کیا کرے۔ کئی لابیاں اور شاید خود کرکٹ بورڈ میں موجود کچھ لوگ ٹیم کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس بار اگر ٹیم سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکی تو واپسی پر ایک کلین اپ آپریشن ہو گا۔ بورڈ چیئرمین پر استعفے کے لئے دبائو بڑھایا جائے گا۔ سیٹھی کیمپ میڈیا ار سیاسی اثرورسوخ کو بروئے کار لائے گا۔ سوچتا ہوں یہ پچہتر ‘ اسی سال کے بزرگ کیوں کرکٹ بورڈ کے ساتھ چپکتے ہیں کیا باقی ٹیموں کے بورڈ بھی ایسے نان پروفیشنل بزرگوں کو کھیل کی باگ ڈور پکڑاتے ہیں۔ ہوس مال‘ طمع اور حیثیت کا لالچ ملک‘ قوم اور کھیل کی عزت سے بالا ہو گیا ہے۔ ٹیم اسی وجہ سے ہار رہی ہے کہ اسے کھیلنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ کون یہ موقع نہیں دے رہا اس سوال کا تعاقب کرنے کی ضرورت ہے۔