’’اسرائیل‘‘عبرانی زبان کا لفظ ہے‘جس کے معنی’’عبداللہ یا اللہ کا برگزیدہ بندہ‘‘کے ھیں‘ یہ حضرت یعقوب بن اسحق بن ابراہیمؑ کا لقب ہے‘ ’’اِیل‘‘ عبرانی میں اسمائے باری تعالیٰ میں سے ہے اور ’’اِسر‘‘ کے معنی عبد یا برگزیدہ بندے کے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کا وہ خاندان‘جو ان کے پوتے‘حضرت یعقوب بن اسحق سے تھا‘ ’’بنو اسرائیل‘‘ کہلایا‘حضرت نوحؑ کے بعد حضرت ابراہیمؑ پہلے نبی ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت کے لئے مقرر کیا‘ جس کے لئے انہوں نے عراق سے مصر اور وہاں سے شام و فلسطین اور پھر عرب کے ریگستان کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا‘ عرب کے مرکز مکتہ المکرمہ میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل‘ شام و فلسطین میں اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحقؑ اور شرقِ اْردن میں اپنے بھتیجے حضرت لوطؑ کو مامور فرمایا‘ پھر اللہ کے حکم سے مکہ میں اللہ کا گھر’’کعبہ‘‘ تعمیر کیا‘ جو اس مشن کا مرکز قرار پایا۔ حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے دو بڑی شاخیں …ایک حضرت اسمٰعیل ؑکی اولاد‘جو عرب میں مقیم ہوئی‘ جن میں ’’قریش‘‘ سب سے نمایاں اور معتبر تھے‘ دوسرے حضرت اسحقؑ‘ جن کا مسکن ’’ارض فلسطین‘‘ جن کی اولاد میں سے حضرت یعقوبؑ‘ حضرت یوسفؑ‘ حضرت موسیٰؑ‘ حضرت داودؑ‘ حضرت سلیمانؑ‘ حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سمیت بہت انبیا تشریف لائے‘ حضرت یعقوبؑ کے لقب ’’اسرائیل‘‘ کے سبب‘ یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی‘ حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے۔ حضرت یوسفؑ اور ان کے چھوٹے بھائی بن یامین کی والدہ ایک تھی‘ باقی دس بھائی‘ حضرت یعقوب ؑکی دوسری بیویوں میں سے تھے‘ فلسطین میں حضرت یعقوبؑ کا قیام حبرون‘ موجودہ الخلیل کی وادی میں تھا‘ جہاں حضرت اسحقؑ اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم ؑبھی قیام فرما رہے‘ حضرت یعقوب ؑکی کچھ اراضی‘ موجودہ نابلس میں بھی تھی‘ حضرت یعقوب ؑکے بیٹے‘ حضرت یوسفؑ کو مصر میں بڑی سطوت اور عروج میسر آیا‘ یہ خطہ اس زمانے کی مہذب دنیا میں سب سے ممتاز اور معتبر حیثیت کا حامل تھا۔ انبیا علیہم السلام کا اصل دین‘ خواہ وہ حضرت موسیٰؑ سے پہلے ہو‘ یا بعد…وہ اسلام ہی تھا‘ان انبیائؑ میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا‘ ’’نہ ان کے زمانے میں یہودیت‘‘ کا کوئی وجود تھا‘ اس ’’ٹائیٹل‘‘ کا معروف ہونا‘ بہت بعد کا قصہ ہے‘ جس کی نسبت دراصل حضرت یعقوب ؑکے چوتھے بیٹے’’یہوداہ‘‘ کی طرف ہے‘حضرت سلیمانؑ کے بعد‘جب ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی‘ تو ’’یہوداہ‘‘ کا خاندان جس خطّے کا مالک بنا‘ وہ ’’یہودیہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا‘جبکہ بنی اسرائیل کے دیگر قبائل کا تعلق خطّہ ’’سامریہ‘‘سے معروف ہوا‘اسکے بعد بتدریج ان اسرائیلی قبائل کی دیگر ذیلی شناختیں گم ہوتی ہو گئیں اور ان سب پر ’’یہود‘‘ ہی کا اطلاق ہونے لگا‘ اس نسل کے اندر کاہنوں‘ ربییوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق۔۔۔ عقائد و رسومات اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صدھا برس میں تیار کیا،وہی ’’یہودیت‘‘ سے موسوم ہوگیا‘یہ ڈھانچہ چار صدیاں قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی بعد مسیح تک بنتا رہا‘تحریفات کے سبب‘الہامی ہدایت اور رسولوں کی تعلیمات کا مختصر و محدود سا عنصر اس میں شامل رہا۔یہود اور نصاریٰ۔قدیمی طور پر’’بنو اسرائیل‘‘ یعنی حضرت یعقوبؑ کی اولاد میں سے ہی تھے(عربی میں ’’بَنْو‘‘ بیٹے کو کہتے ہیں‘جو دراصل ’’بنون‘‘ تھا‘ ’’مضاف‘‘ ہونے کی صورت میں ’’ن‘‘ حذف ہو کر ’’بنو‘‘ رہ گیا۔ جس کے بعد کسی قبیلے کے جدِّ امجد کا نام بطور ’’مضاف الیہ‘‘ آتا ہے) حضرت عیسیٰ ؑبھی بنو اسرائیل ہی کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے‘ ان میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور یہ لوگ نصاریٰ اور حواری کہلائے‘اور ایک گروہ نے انہیں رسول ماننے سے انکار کیا‘جو یہودیت پر قائم رہے۔ حضرت یوسفؑ تقریباً انیس سو قبل مسیح میں سترہ برس کی عمر میں کنویں میں پھینکے گئے جو کہ سِکّم موجودہ الخلیل سے قریب تر تھا‘ جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ شرقِ اْردن سے آ رہا اور مصر کی طرف جا رہا تھا‘ اس زمانے میں مصر کا دارالسلطنت مِمفِس(منف) تھا‘ جس کے کھنڈر‘ قاہرہ کے جنوب میں تقریباً 20کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہیں‘حضرت یوسفؑ قید و بند کے بعد‘ تقریباً 30سال کی عمر میں تختِ اقتدار پر متمکن ہوئے اور 80سال تک بلا شرکت غیرے تمام مملکتِ مصر پر حاکم رہے‘ اپنی حکومت کے کم و بیش دسویں سال‘انہوں نے اپنے والد‘ حضرت یعقوب ؑکو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا کر قاہرہ کے قریب آباد کیا‘ روایات کے مطابق حضرت یعقوبؑ تقریباً ستر افراد پر مشتمل خاندان اور قبیلے کے ساتھ مصر تشریف فرما ہوئے‘ان کا خاندان اور قبیلہ یہاں خوب پھلا پھولا‘حضرت یعقوبؑ مصر میں تقریباً 17سال تک حیات رہے اور 130سال کی عمر میں دارِ فانی کوچ فرما گئے‘ جبکہ حضرت یوسف ؑکی عمرِ مبارک 120سال بیان ہوتی ہے۔ حضرت یوسف ؑاور آپ کے بعد آپ کے خاندان کو اس خطّے میں بڑا عروج اور اثرورسوخ میسر رہا‘ملک کی اکانومی اور اقتدار پر ان کا قبضہ تھا‘یہ سلسلہ کم و بیش حضرت موسیٰؑ کے ظہور تک جاری رہا‘اسی دور میں اس خطّے میں ایک ’’قوم پرستانہ تحریک‘‘اْٹھی‘جس کے سبب’’بنی اسرائیل‘‘کا حاشیہ تنگ ہونا شروع ہو گیا اور ان پر ظلم و ستم کا آغاز ہوا‘جس کے نتیجے میں بالآخر ’’قبطیوں‘‘ نے دوبارہ قوت حاصل کر لی‘انکے لڑکوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو مقامی آبادی کے تصرّف میں لانے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ بنی اسرائیل جائیدادوں سے محروم اور زرخیز زمینوں سے بے دخل اور حکومتی منصبوں سے محروم کر دیے گئے‘اس غلامی اور مایوسی کے دور میں‘ حضرت موسیٰ ؑپیدا ہوئے‘ جن کی قیادت میں‘ یہ قوم غلامی کی حالت سے نکلی‘ ان پر اللہ کی طرف سے کتاب اور شریعت نازل ہوئی اور یہ دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی۔ حضرت موسیٰؑ کی دعوت پر بھی چند نوجوانوں کے علاوہ بنی اسرائیل کی اکثریت نے انکار کیا‘ حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے درمیان حق و باطل کی اس کشمکش میں بھی یہود اور قوم بنی اسرائیل گریز پا ہی رہی‘ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ لوگ مصر سے نکلے‘ ان کی سرکوبی کے لئے فرعون اور اس کا لشکر نیل کی موجوں کی نذر ہو گیا اور بنی اسرائیل فلسطین کی طرف روانہ ہو گئے۔ فلسطین میں جو مختلف قومیں آباد تھیں‘ ان میں بدترین شرک پایا جاتا تھا‘ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو ہدایات دی تھیں‘ ان میں واضح طور پر حکم تھا کہ تم ان قوموں پر غلبہ پا کر شرک و بت پرستی کا خاتمہ کر دینا‘ لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ ؑکی اس بات کو فراموش کر دیا۔ جس کے سبب بنی اسرائیل بھی شرک اور دیگر اخلاقی بداعمالیوں میں مبتلا ہو کر‘ حد درجہ مغلوبیت کا شکار ہو گئے‘ آخر کار 1020ء قبل مسیح میں‘ حضرت سموئیل نے طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ نامزد کیا‘ جس کی قیادت میں بنی اسرائیل ایک متحدہ سلطنت کے قیام کے لئے یکسو ہوئے۔ طالوت اور جالوت کے لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ حضرت داودؑ اس وقت ایک کم سن نوجوان تھے‘ آپ عین اس وقت طالوت کے لشکر میں پہنچے‘ جبکہ دوسری طرف فوج کا کمانڈر اور گرانڈیل پہلوان جالوت بنی اسرائیل کی فوج کو دعوت مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کو سامنے آنے کی ہمت نہ ہو رہی تھی۔ حضرت داودؑ بے محابا‘ اس کے مقابلے پر میدان میں آنکلے اور اس کو قتل کر دیا۔(جاری ہے)