حالیہ ہیجانی دنوں،ہفتوں بلکہ مہینوں کے اندر اگرہم نے کچھ کھویا ہے تو وہ آئینی اداروں کا دبدبہ اوروقار ہے۔ہمارا آئینی ڈھانچہ تین ستونوں پر استوار ہے۔سامنے کی بات مگر یہ ہے کہ اس پُر آشوب دور میں سب سے بڑی قیمت عدلیہ نے چکائی ہے۔ ہمارے ہاں دیگر آئینی اداروں کی طرح عدلیہ کی کارکردگی بھی تاریخی طور پر کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ کریدا جائے تو ہماری اجتماعی قومی کم مائیگی کی جڑیں دو سو سال تک جاتی ہیں ۔ممتاز دانشور مختار مسعودکے خیال میں’ کلکتہ میں 1817 ء میںہندوکالج کے قیام اورعلی گڑھ میں سر سید کے مدرسۃ العلوم کی رسمِ افتتاح کے درمیان ساٹھ سال کا تعلیمی فاصلہ ہے۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو برصغیر کے مسلمان آج تک طے نہیں کر سکے‘۔ آر۔سی۔موجمدار کی ’تاریخ آزادی‘ کے مطابق سال 1877ء میںعلی گڑھ کالج کی داغ بیل ڈالے جانے کے وقت ہندوستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم17,350 طالب علموں میں سے صرف 1630 مسلمان تھے۔1636ہندو گریجویٹس اور 240 بار ایٹ لاء کے مقابلے میں صرف 26 مسلمان گریجویٹس اور سارے ہندوستان میں صرف ایک مسلمان بارایٹ لاء تھا۔ دو قوموں کے مابین پیدا ہونے والی تعلیمی تفاوت اور اسی نسبت سے زندگی کے ہر شعبے میںپسماندگی کا تناسب برصغیر کو آزادی ملنے تک قائم رہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے باب میں قیام پاکستان تک مسلم اکثریتی صوبہ پنجاب کی لاہور ہائی کورٹ کی 81 سالہ تاریخ میں صرف سات مسلمان جج اور گنتی کے محض چند قابل وکلاء گزرے ۔ یہی تناسب زندگی کے دیگر شعبوں میں تربیت یافتہ اور با صلاحیت افرادکی تعدادمیں بھی پایا جاتا تھا۔تاہم اگست 1947ء میں دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ انصاف کا بھی یہی سیکٹر ہمیں ورثے میں ملا۔بدقسمتی سے قرنوں کے تعلیمی فاصلے، قومی اداروں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں ہماری ناکامی اور مجموعی سیاسی انتشار کی بناء پر ہماراابتدائی عشرہ جس ابتری کا شکار رہا اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے کی طرح عدلیہ پر بھی اُسی شدت کے ساتھ اثر اندازہوئے ۔مولوی تمیز الدین کیس میں بروئے کار آنے والے ’نظریہ ضرورت‘ سے کون واقف نہیں ؟چند ہی برسوں بعدایک اور عدالتی فیصلے کے ذریعے ہماری تاریخ کے پہلے مارشل لاء کوقانونی جوازعطا کیا گیا۔ 1973 ء کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا توتین ستونوں پر استوار نظام میں عدلیہ کی آزادی کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تحفظ فراہم کیا گیا۔کہا جاسکتا ہے کہ بھٹو صاحب اپنی سرشت میں ایک مطلق العنان حکمران تھے۔ تاہم عدلیہ کے پر کاٹنے کی مبینہ خواہش کے باوجود انہوں نے نہ تو کبھی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کوسرِ عام تضحیک کا نشانہ بنایا اور نہ ہی کبھی عدلیہ کے کسی فیصلے کی حکم عدولی کی۔حتی کہ ُان کی سزائے موت کے فیصلے میں بعض منصفوںکا کردار اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی عشرے کے دوران عدلیہ کے کردار پر بات کرنا بے سود ہے،کہ اس دور کے تمام سیاسی اور عدالتی کردار اور ان کے رویے اب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ مارشل لاء اٹھ جانے کے بعد بھی عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ جونیجو حکومت کابحال نہ ہونا اسی دبائو کی ایک مثال ہے۔تاہم اس باب میں دیئے جانے والے ایک بیان پر اُس وقت کے چیف جسٹس نے ایک سابق طاقتور شخصیت کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے بظاہر عدالتی وقار قائم رکھنے کی اپنی سی ایک کوشش توضرور کی تھی۔نوے کے عشرے میں سویلین حکومتوںکی برطرفیوں کو جائز اور ناجائز قرار دیئے جانے جیسے متنازعہ فیصلے آئے۔ تاہم ان فیصلوں پر بھی تنقیدنہ صرف یہ کہ ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھی بلکہ ہر ایک فیصلے پر عملدرآمد کامل یکسوئی سے ہوا۔سال1998ء میں سپریم کورٹ کی عمارت پر ہونے والا حملہ ہماری ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا ۔تاہم اس کے باوجود بے دست و پا کئے جانے والے چیف جسٹس کی طرف سے عجلت میں دیئے گئے آخری حکم کے سوا ،سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کی دن دیہاڑے حکم عدولی تک نوبت نہ پہنچی تھی۔مارچ 2007 ء میں عدلیہ نے ایک غیر معمولی کروٹ لی اور صرف آئینی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ’طاقت کی تکون ‘کا سب سے تنومند کردار بن کر ابھری۔ نواز شریف کے تیسرے دورِ اقتدار کے آخری برسوں میں عدلیہ کا اُن کے خلاف فعال ہو جانا ہماری سیاسی تاریخ کا منفرد باب ہے ۔ چنانچہ اس کے ردِ عمل میںاس دور کے ججوں کے بارے میں میاں صاحب اور ان کی پارٹی کی جانب سے شکوے شکایات کا کیا جانا قابلِ فہم تھا۔ عدالتی فیصلوں کے پیچھے غیر مرئی ہاتھوں کی نشاندہی کئے جانا بھی ہماری سیاسی تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی غیر معمولی طرزِعمل نہیں تھا۔تاہم معاملے نے تشویش ناک صورت اُس وقت اختیا ر کی کہ جب انصاف کے سیکٹر میں ’ اچھے‘ اور ’بُرے‘ افراد کی تفریق پیدا کئے جانے کے سلسلے کا آغا ز ہوا۔ بظاہر ایک ترتیب سے برپا کی گئی اس مہم کے ذریعے جو زہریلا بیج بویا گیا تھا، کہا جا سکتا ہے کہ آج ہم سب اُسی کا پھل کھا رہے ہیں۔آج پورے کے پورے انصاف کے سیکٹر میں تقسیم کی باتیں زبان زدِ عام ہیں۔ ہماری تاریخ میں دیئے گئے متعدد متنازعہ عدالتی فیصلوں پر لاکھ اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں۔ کئی سابقہ ججوں کو بھی ہر روز ہدفِ تنقید بنایا جانا معمول کی بات رہی ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں ادارے کے اندر ’ناموافق‘ سمجھے جانے والوں پر جس طرح چومکھی جنگ مسلط کی گئی ہے اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔اس غیر مرئی محاذ آرائی کا شکار صرف ادارہ نہیں بلکہ پورا پاکستان ہواہے کہ جس کے اثرات نہ جانے کب تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ آج اگر ہرایرے غیرے کی زبان پر یہ نہ ہوتا کہ مرضی کے فیصلے لئے جانے کی خاطرانصاف کے سیکٹر میں موجود ’حلیفوں ‘کو نت نئی چالوں کے ذریعے پے در پے استعمال کیا جا رہاہے، تو آج ہمارا یہ حال بھی نہ ہوتا۔تاریخ میں پہلی بارسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو ماننے سے انکار کی کسی میں جرات بھی نہ ہوتی۔کسی کو یہ جرات بھی نہ ہوتی کہ وہ آئین ، انصاف کی بالا دستی اور قومی وقار کا استعارہ سمجھی جانے والی عمارت کے سامنے لشکر جمع کرتا۔ سر عام چوک چوراہے پرمخصوص نام پکارتا، دشنام طرازی کرتا۔تاریخی حقائق اپنی جگہ، مگر کسی بھی جمہوری کہلائے جانے والی ریاست کے لئے فکر مندی کا کوئی اورسبب اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے شہری آئین کی بالا دستی اور حقِ رائے دہی سمیت اپنے دیگر بنیادی انسانی حقوق سے متعلق خدشات کا شکارہونے لگیں۔ اگر یہ محض ایک تاثر بھی ہے تواِس تاثر کو زائل کرنے میں ناکامی پرکوئی ایک یا دو چار نہیں،تمام کے تمام عزت مآب تاریخ کو جوابدہ ہوں گے۔