نئی دلّی میں متعین پاکستانی سفیر کو اگر مختلف ذرائع سے یہ مصدقہ اطلاع موصول ہوتی ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور چند دنوں میں وہ اچانک حملہ آور ہو جائے گا تو اس کا پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اس اطلاع کو وزارتِ خارجہ کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان تک پہنچائے۔ جدید ترین مواصلاتی سہولیات کے باوجود آج بھی محفوظ ترین ذریعہ سائفر (Cypher) سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا خط ہوتا ہے جو ہر ملک کی اپنی خفیہ زبان میں لکھا جاتا ہے۔ اس اطلاع کے ملتے ہی پاکستان کے منتخب وزیر اعظم پر یہ فرضِ منصبی عائد ہو جاتا ہے کہ وہ فوراً اپنے ملک کے خلاف ہونے والی اس جنگی تیاری اور خفیہ سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی مشینری کو مطلع کرتے ہوئے، خبردار کرے اور ملکی سطح پر مقابلے کی تیاری مکمل کرے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا آئین اپنے منتخب وزیر اعظم کو یہ کلّی اختیار دیتا ہے کہ وہ اس سائفر کوڈ میں آئی ہوئی اطلاع کو جس حد تک مناسب خیال کرے اپنے عوام تک پہنچائے تاکہ عوام اپنے دشمن سے باخبر ہو سکیں۔ آئین کے مطابق پاکستان کی تمام حساس معلومات منتخب حکومت کی ملکیت ہیں اور حکومت کو ہی یہ اختیار ہے کہ وہ کب، کس وقت اور کس قدر معلومات عوام کو فراہم کرے تاکہ عوام ملک پر منڈلاتے ہوئے خطرات سے آگاہ ہو سکیں۔ لیکن پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جس کے منتخب وزیر اعظم پر آج یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے ’’حساس معلومات‘‘ عوام کو کیوں بتائیں اور اپنا یہ آئینی اختیار کیوں استعمال کیا۔ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس الزام کی تحقیقات ایف آئی اے یا خفیہ ایجنسیوں کے وہ افسران کریں گے جن کی حیثیت، مقام اور مرتبہ ایسا ہے کہ نوکری کے دوران خود ان سے ملک کی تمام حساس معلومات چھپائی جاتی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ بیرون ملک پاکستانی سفیروں نے بذریعہ سائفر کونسی معلومات بھیجی ہیں۔ اسی طرح آئی بی، ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نسبتاً جونیئر افسران کو بھی ان حساس معلومات تک کوئی رسائی نہیں ہوتی۔ لیکن اس ملک کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ اب یہ لوگ ایک ایسے معاملے کی تحقیق کریں گے جس کا علم صرف وزیر اعظم کو ہوتا ہے۔ وہ ’’سائفر کوڈ‘‘ جسے انتہائی سنبھال کر رکھا جاتا ہے، اب ایک ایسی ٹیم کی دسترس میں آ جائے گا، جو نہ کسی حلف کی پابند ہے اور نہ اس کی حساسیت سے آشنا۔ سائفر کوڈ ہے کیا چیز اور یہ کہاں پر محفوظ ہوتا ہے؟ عالمی سطح پر اس کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال پرانی ہے، جب سر فرانسس تھائنی (Sir Francis Thynne) نے 1576ء میں سفارت کاروں کی خصوصیات کے بارے میں ایک مفصل کتابچہ تحریر کیا۔ اس نے لکھا کہ دوسرے ملک میں بادشاہ کے نمائندے پڑھے لکھے، خاندانی، آزاد، خود مختار ہو نے چاہئیں، جن کا معاشرے میں ایمانداری اور ذہانت کی وجہ سے ایک مقام ہو، وہ زبانوں کے ماہر ہوں اور وہ اس قابل بھی ہوں کہ بادشاہ کے ساتھ ’’خفیہ‘‘ معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔ ان خفیہ معلومات کے تبادلے کے لئے ایک ایسے کوڈ یا ایک ایسی زبان کی ضرورت محسوس کی گئی جو صرف بادشاہ، سفارت کاروں یا ان مخصوص عمائدینِ سلطنت کو آتی ہو جن پر بادشاہ اعتماد کرتا ہو۔ اسی ضرورت کے لئے حکومتِ برطانیہ نے ایک خفیہ زبان ’’سائفر کوڈ‘‘ کے نام سے ترتیب دی۔ یوں تو ایسی زبان کا رواج پہلے سے موجود تھا اور کچھ سفیر اپنے خطوط کا کچھ حصہ ایسی زبان میں تحریر بھی کرتے، جسے پڑھنے کے لئے بادشاہ نے اپنا ایک خاص معتمد رکھا ہوتا تھا، مگر اسے مستقل زبان کا درجہ اس کے بعد ملا۔ برطانوی ہندوستان میں چونکہ تمام سفیر اور وزارتِ خارجہ کے افسران انگریز نسل کے بااعتماد لوگوں میں سے تھے اس لئے ہندوستان میں سائفر کوڈ وائسرائے اور ڈپٹی کمشنر حضرات کے درمیان خفیہ معلومات کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ روایت آج تک قائم ہے اور ایک ڈپٹی کمشنر یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جن دو چیزوں کا محافظ ہوتا ہے ان میں ایک ’’بلیو بُک‘‘ (Blue Book) ہے جو وی وی آئی پی کی سکیورٹی سے متعلق ہے اور دوسرا سائفر کوڈ۔ ڈپٹی کمشنر کے گھر پر جو گارڈ متعین ہوتی ہے وہ انہی دو اہم دستاویزات کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے۔ ہر ضلع میں ایک ’’سائفر اسسٹنٹ‘‘ ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً اسلام آباد جا کر سائفر کی ٹریننگ لیتا رہتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ہر سفارت خانے میں بھی یہ بحفاظت کوڈ پڑا ہوتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کوڈ کے مطابق خفیہ معلومات والا خط تحریر کیا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت چونکہ ایسے خطوط کی بھر مار ہو گئی تھی اس لئے انہیں پڑھنے کے لئے ایک مشین بھی بنائی گئی جسے اینگما (Enigma) مشین کہا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند پر چونکہ ایک سو سال براہِ راست تاجِ برطانیہ کی حکومت رہی ہے، اس لئے یہاں ایک روایت یہ بھی مستحکم ہو چکی ہے کہ ’’حساس معلومات‘‘ صرف اور صرف سول اور ملٹری بیوروکریسی کے دائرۂ اختیار میں ہی رہنی چاہئیں۔ عام پبلک چونکہ ’’محکوم‘‘ ہے اس لئے انہیں کسی بھی ریاستی ’’راز‘‘ میں شریک نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی سطح پروائسرائے کے دفتر کے بعد سب سے اہم ادارہ ڈپٹی کمشنر کا دفتر بنایا گیا تھا جو ایک ’’چھوٹا وائسرائے‘‘ ہوتا تھا اور اس دفتر میں تمام تر خفیہ معلومات جمع ہوتی تھیں۔ ہر ڈپٹی کمشنر وفاداروں اور دشمنوں کے بارے میں ایک ڈائری تحریر کرتا تھا جسے "Personiges" کہتے ہیں۔ اسی طرح تھانے کا ایس ایچ او بھی ایک رجسٹر بناتا ہے جس میں جرائم پیشہ اور ملک دشمن افراد کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ اس رجسٹر کو بھی سوائے ایس ایچ او کے کسی اور کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ یہ تمام خفیہ معلومات مرکزی سطح پر وزارتِ داخلہ میں موجود ایک ایسے مخصوص سیل میں جمع کر دی جاتیں، جس تک ’’عوام‘‘ یا ’’عوامی نمائندوں‘‘ میں سے کسی کی بھی رسائی ممکن نہیں تھی۔ یہ تھی وہ انگریز کی اسٹیبلشمنٹ اور جو آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ یہی اٹیبلشمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون دشمن، کون محب وطن ہے اور کون غدّار، کس ملک سے تعلقات استوار کرنے ہیں اور کس سے نہیں۔ انگریز نے اپنے سو سالہ اقتدار میں ایک دن کے لئے بھی کبھی عوام کو ان فیصلوں میں شریک نہیں کیا اور ہم نے بھی اسی انگریز کی پیروی کرتے ہوئے پچھتر سالوں میں کبھی بھی عوام کو ان فیصلوں میں شریک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بدقسمتی یہاں تک ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اصل صورت حال جاننے کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل بھیک مانگتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی ’’عنایاتِ خسروانہ‘‘ کے طور پر پارلیمنٹ کے بند دروازوں (in camera) والے اجلاس میں انہیں تھوڑا بہت بتا دیا جاتا ہے۔ لاہور کا آرکائیوز جو دنیا بھر میں قدیم دستاویزات کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے، اس میں جو معلومات 1849ء سے اب تک موجود ہیں، اگر انہیں طشت از بام کر دیا جائے تو بائیس کروڑ عوام کو کھرے اور کھوٹے کی فوراً پہچان ہو جائے۔ لوگوں کو بخوبی علم ہو جائے کہ کس خاندان نے انگریز کی غلامی میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا اور وہ کون تھے جو انگریز کی عنایتوں سے معزز بنا دیئے گئے۔ لیکن ان تمام معلومات کو تو آج بھی صرف اور صرف سول اور ملٹری بیوروکریسی کے چند اعلیٰ افسران کو دیکھنے کا حق حاصل ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ منتخب وزیر اعظم تک بھی اکثر اوقات ’’چھان پھٹک‘‘ کر معلومات پہنچائی جاتی ہیں۔ وہ جو بائیس کروڑ کا نمائندہ ہے، جس نے آفت، جنگ اور مصیبت میں اس ملک کو قیادت فراہم کرنا ہے۔ اسی کا اختیار ہے بلکہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ تمہارے خلاف کیا سازش ہو رہی ہے۔ اگر وہی غدّار ہے تو پھر محبِ وطن کون ہے۔