علامہ اقبال ؒ کو امام ربّا نیؒ ، حضرت مجدّد الف ثانیؒ، شیخ احمد سر ہندیؒ سے از حد عقیدت و محبت تھی، ان کا خیال تھا کہ سلاسل تصوف میں زیادہ تر سکونی(Static) ہیں، جبکہ نقشبندی سلسلہ حرکی"Dynamic"ـاور حضرت مجدّد الف ثانی سلسلہ نقشبندیہ کی اس حرکیّت " Dynamical" کا نقطۂ کمال ہیں۔ حضرت امام ربانیؒ سے،اقبالؒ کے روحانی تعلق اور لگائو کا یہ عالم تھا کہ جب ان کے ہاں جاوید اقبال کی ولادت ہوئی ، تو انہوں نے منّت مانی کہ وہ بڑا ہوگا تو اس کو حضرت امام ربانیؒکی بارگاہ میں پیش کرونگا۔ چنانچہ29 جون1934ء کو آپؒ، جاویداقبال کو ساتھ لیکر سر ہند شریف حاضر ہوئے ، علامہ اقبالؒ زیادہ مشقت پسند نہ تھے، لیکن سر ہند شریف کی اس حاضری کے لیے جون کی شدید گرمی میں بھی ، نوخیز صاحبزادے کے ساتھ، یہ سفر اختیار فرمایا، مابعد، اس سفر کے روحانی تجربات اور مزاراتِ اولیاء سے فیضانِ الٰہی کے حصول کی باتیں سناتے ہوئے ، ہمیشہ ان کا دل محبت سے معمور اور آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ،سرہند شریف کے اس سفر سے واپسی پر آپؒ نے بالِ جبرئیل کی وہ معروف نظم کہی جس کے چند شعر ملاحظہ ہوں: حاضر ہوا میں شیخ مجدّد کی لحد پر وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار گردن نہ جھکی جس کی جہاں گیر کے آگے جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار وہ ہند میںـ سرمایۂ ملّت کا نگہبان اللہ نے بَر وقت کیا جس کو خبردار شیخ احمد سرہندیؒ26 جون1564 کو سر ہندمیں پیدا ہوئے، ان کا اسم گرامی’’احمد‘‘ لقب بدر الدین اور کنیت ابو البر کات تھی ، سترہ برس کی عمر میں علوم عقلیہ و نقلیہ سے فارغ ہوکر ، درس و تدریس میں مشغول ہوگئے، اسی زمانے میں انہوں نے رسالہ تہلیلہ اور فارسی میں ’’ردّ روافض ‘‘تحریر فرمایا۔ سولہویں صدی کے مسلم بر صغیر میں، آپ ؒ’’راسخ الا عتقادی‘‘کے امین اور اسلامی تصوّف کے عظیم مصلح تھے، حضرت شیخ احمد سر ہندیؒ طبقہ اشرافیہ اور اسٹیبلشمِنٹ کی اصلاح کے بڑے قائل تھے ،کہ ان کے خیال میں اس پر پورے سماج کی اصلا ح کا انحصار ہے۔چنانچہ احیا ئے دین اور اصلاح احوال کے حوالے سے انہوں نے امراء اور حکومتی عمائدین پر بھی بطور خاص توجہ مرکوز کی،جہانگیر کے دربار میں شیعہ امراء کو کافی اثرور سوخ حاصل تھا، اور وہ حضرت امام ربانیؒ کی تحریک کو دراصل سُنّی عقائد کے فروغ پر محمول کرتے تھے، جو کہ درست بھی تھا، بنا بریں ان کو مقتدر طبقے کی طرف سے بھی بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سترھویں صدی حضرت امام ربانی ؒ کے اسلوبِ فکر اور احیائے دین کے حوالے سے، آپؒ کی جدوجہد کے فروغ کی صدی تھی،’’راسخ الا عتقادیت‘‘ کی ضرورت اور اہمیت کا اس عہد میں ادراک کیا جانے لگا،یہانتکہ حضرت با قی باللہؒ کے بعد حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ بھی اس فکر کے موید بنے، جہا نگیر کی تخت نشینی کے وقت حضرت امام ربّانیؒ اور آپؒ کے پیرو کار ایک مضبوط حیثیت اختیار کر چکے تھے، جس کے سبب کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے مطابق :اس نئے حکمرانِ اعلیٰ سے شریعت کی پا سداری اور اکبر کے معطل کردہ اسلامی اداروں کی بحالی کا عہد لیاگیا۔ دارا شکوہ کے مقابلے میں عقیدہ پرست امراء کا اورنگ زیب کی حمایت کرنا ، دراصل امام ربّا نیؒ کی اسی طویل جدو جہد کا اثر تھا، کیونکہ داراشکوہ کی کامیابی کو آزادخیالی اور لبر ل ازم کے فروغ کا ذریعہ، جبکہ اورنگ زیب، جو کہ شیخ احمد سر ہندیؒ کے زیر اثر تھا، عقیدہ پر ست اور راسخ الا عتقاد قوتوں کا نمائندہ متصور ہوا۔ جس کے سبب ،اس کی تخت نشینی سے، شرعی علوم و معارف کی سرکاری سطح پر ترویج فطری امر تھی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ، شیخ احمد سرہندیؒ کے افکارو تعلیمات اور اسلوبِ تربیت نہایت متوازن اور متعدل تھا،اُس عہد کے بُرے عقائد جن میںخوارج، نواصب اور دیگر باطل نظریات فروغ پار ہے تھے، کی آپؒ نے زور دار طریقے سے بیخ کنی کی، آپؒ کی امتیازی خصوصیت ان کی ’’رگِ فاروقیم‘‘یعنی شدید اسلامی احساس ہے، جس کو وہ بار بار اپنے مکتوبات میں، اس ترکیب کیساتھ دہراتے ہیں۔ آپؒ کے اسی جذبے اور ولولے کے سبب، مکتوبات میں نقشبندی سلسلے میں اتباعِ شریعت اور ترویج سُنت کا جوش دوسرے سلاسل تصوّف کی نسبت زیادہ جانا ں جاتا ہے۔آپؒ کے مکتوبات اسلامی عقائدو اعمال اور دینی افکار و نظریات کے حوالے سے شمع ہدایت کا درجہ رکھتے ہیں، عقائد کی درستگی کا التزام آپؒ کے بنیادی کارناموں میں سے ایک ہے، کیونکہ عقیدے کی صحت و درستگی ہی اعمال کی قبولیت کی بنیاد ہے، اس حوالے سے حضرات صحابہ کرامؓ کی محبت اوراہلِ بیت اطہار کی مودّت کو ایمان کی اساس گرد انتے ہیں۔بر صغیر میں نقشبندی سلسلے کی پرداخت(Growth) اور پھر اس میں درپیش چیلنجز سے قطع نظر ، آپؒ نے اہلِ بیت اطہار ؓکیساتھ اپنی وابستگی اور محبت کو کسی مصلحت کا شکار نہ ہونے دیا۔بلا شبہ سلسلہ نقشبندیہ خلیفتہُ الرسول حضرت ابو بکر صدیقؓ کے واسطے سے نبی اکرمﷺ تک اتصال پاتا ہے۔ اس حوالے سے عام تاثر یہ پیدا کردیا گیا کہ شاید حضرات شیخین، خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ کو تو بہت زیادہ فضیلت میسر ہے، لیکن اہلِ بیت اطہارؓ اور سیّدۃ طیبہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اورحضرت علی المرتضیٰ ؓسے محبت’’ ـــــرفض‘‘کے زُمرے میں آتی ہے۔ یہ تاثر بے سروپااور بے بنیاد ہے ۔ حضرت امام ربّانیؒ نے جس موثر اور محبت آمیز پیرائے میں، ان ذواتِ مقدسہ کے مقام و مرتبہ کو بالخصوص ، اپنے مکتوبات میں بیان کیا ہے ، بر صغیر میں شاید کوئی اور اس سطح کو نہ پہنچ سکا ہو۔ اور یہاں یہ بھی واضح رہے کہ آپ ؒ کے مکتوبات ، آپؒ کی مجدّدانہ شان اور مجتہدانہ اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ آپؒ، مکتوبات ِ امام ربّانی، دفتر دوم، مکتوب36 میں فرماتے ہیں:"۔۔۔ اہل سنت و جماعت ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان حضرت علی المر تضیٰ ؓ سے محبت رکھے، جس شخص کا دل اہل بیت کی محبت سے خالی ہے وہ اہل سنت سے خارج ہے اور’’خارجی فرقہ‘‘ میں داخل ہے۔آپؒ اسی مکتوب میں مزید فرماتے ہیںوہ شخص بہت ہی جاہل ہے جو اہل سنت و جماعت کو اہل بیت کا مُحبّ نہیں سمجھتا اور اہل بیت سے محبت کرنا شیعوں کو خاصہ جانتا ہے حضرت علی ؓ سے محبت کرنا شیعیت نہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:" اگر آل محمد ﷺ سے محبت رکھنا شیعیت ہے تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں" ۔مکتوبات امام ربّانی، دفترِ اوّل، مکتوب251 میں آپؒ فرماتے ہیں کہ:’’اے برادر چونکہ حضرت علیؓ، ولایتِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ ولسلام والتّحیہ کے بوجھ کے حامل ہیں ، اس لیے اقطاب، ابدال اور اوتادوں کے مقام کی تربیت حضرت علیؓ کی امداد و اعانت کے سپرد ہے اور یہ مذکورہ الصدر اولیائ، اولیاء عُزلت کہلاتے ہیں اور ان پر ولایت کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ قطب الاقطاب جسے قطب مدار بھی کہتے ہیں، حضرت علیؓ کا قدم مبارک اُس کے سر پر ہوتا ہے ۔ قطب مدار حضرت علیؓ کی حمایت ورعایت کے ذریعہ ہی اپنی ڈیوٹی انجام دے سکتا ہے اور اپنے عہدہ قطب مداریت کو سنبھال سکتا ہے، حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسنینؓ بھی اس کام میں آپ کے ساتھ شریک ہیں‘‘۔ (جاری ہے)