اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم، وزیرا علیٰ اور کابینہ کے کسی وزیر نے وسیب کا دورہ نہیں کیا، مرکزی اور صوبائی کابینہ میں وسیب کی نمائندگی پہلے ہی کم ہے، بلدیاتی ادارے بھی معطل ہیں، اسی بناء پر وسیب کے مسائل کو جاننے اور حل کرنے والا کوئی نہیں ہے، وسیب میں پہلے بھی احساس محرومی ہے اور اب اس میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے، بڑی بات یہ ہے کہ عام مسئلے تو اپنی جگہ رہے کوئی بہت بڑا حادثہ ہو جائے تب بھی وسیب کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، گزشتہ ماہ ملتان میں سلنڈر حادثہ پیش آیا، نو افراد جاں بحق ہوئے ملتان آج بھی سوگوار ہے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے نہ تو تعزیت کیلئے کوئی آیا اور نہ ہی مالی امداد کی۔ فیصل آباد میں واسا سیور مین کا حادثہ ہوا تو وزیر اعلیٰ کی طرف سے بھاری پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ملتان حادثے پر مرکز اور صوبے کی طرف سے کوئی کیوں نہیں آیا؟ حالانکہ وزیر اعلیٰ کے آنے کا کہا گیا تھا، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ممکنہ دورہ ملتان کے باعث سانحہ حرم گیٹ کے متاثرین اور ان کے ورثا واقعہ کے 20 روز گزرنے کے باوجود آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں جبکہ دوسری طرف جس علاقے محلہ جوگیاں میں عمارت گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا وہاں حکومتی امداد تو اب تک نہیں پہنچ پائی البتہ اب وہاں کے مکینوں کو نوٹسز بھجوانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ جائے حادثہ پر آج بھی جا کر دیکھیں تو وہاں در و دیوار سے بھی آہ و بکا کی پکاریں آتی ہیں اور وہ حکمرانوں کی آمد کی راہ تک رہے ہیں مگر کیا ستم ہے کہ ستم رسیدہ لوگوں پر نت نئے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، بحالی کا کام کرنے کی بجائے نوٹس جاری کرنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امداد کے منتظر علاقے میں عمارتوں کو گرانے کے نوٹسز جاری ہونے پر اہل علاقہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ حرم گیٹ کے علاقے محلہ جوگیاں میں 11 اور 12 مارچ کی درمیانی شب ایک گھر کی دوسری منزل پر گیس دھماکہ ہوا تھا، جس سے عمارت قریبی کچے مکان پر جا گری، اس واقعہ میں ایک خاندان کے 7 اور دوسرے خاندان کے دو افراد جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ اس واقعہ میں خاتون سمیت دو افراد زخمی بھی ہوئے تھے، حادثے کا ایک زخمی ابھی بھی زیر علاج ہے۔ زخمی کو بھی کوئی نہیں پوچھتا، بڑی بات یہ ہے کہ وسیب کے سرمایہ دار، جاگیردار، علمائ، گدی نشین اور سیاستدان سب خاموش ہیں، ستم رسیدہ لوگوں کی اشک شوئی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے، اُس گھر میں جا کر دیکھئے جہاں حادثہ ہوا یا پھر آس پاس کے لوگوں سے پوچھئے، کسی کو کوئی ترس نہیں آرہا، آگے عید آرہی ہے، لواحقین کو ووٹ لینے والے مقامی سیاستدانوں کی طرف سے آئے روز تسلیاں ملتی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پہنچ رہی ہیں، آپ کی بھرپور امداد ہو گی اور یہ بھی دیکھئے کہ اس واقعہ کے بعد تین سے چار بار وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے دورے کا شیڈول جاری ہو چکا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی مصروفیت کی وجہ سے ملتان نہیں پہنچ سکیں اور ضلعی انتظامیہ نے بھی کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمیوں اور جاں بحق ہونیوالوں کے خاندانوں کو اب تک مالی امداد نہیں دی اور ان متاثرین کیلئے بنائے گئے چیک آج بھی وزیر اعلیٰ کی آمد کے منتظر ہیں۔ہم چند دن پہلے دوبارہ جائے حادثہ پر گئے تو اہل محلہ نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے کوئی نہیں آیا، کارپوریشن سے بھی کسی نے اشک شوئی نہیں کی، سچی بات تو یہ ہے کہ گیس دھماکے کے بعد محلہ جوگیاں کے رہائشی کسی سرکاری امداد کے انتظار میں تھے کہ جو قریبی گھر متاثر ہوئے ہیں تو شاید حکومت ان کی مرمت کیلئے کوئی امداد دے لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہنے لگی۔کارپوریشن کی جانب سے اس علاقے میں دس کے قریب گھروں کے مکینوں کو نوٹسز بھجوائے گئے ہیں کہ ان کے گھر اب رہنے کے قابل نہیں رہے، ان گھروں کو اب رہائش کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ نوٹسز میں لکھا گیا ہے کہ ان گھروں کو گرا کر دوبارہ بنائیں یا پھر مکمل مرمت کرائیں بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے ساتھ ساتھ ان عمارتوں کو سیل کرکے گرایا بھی جا سکتا ہے۔ وہاں کہ مکینوں نے بتایا کہ اہل محلہ حکومتی بے توجہی پر اہل محلہ پریشان ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ اس سانحہ کی فریاد صدر، وزیر اعظم اور وزیرا علیٰ تک پہنچائی جائے اور اُن کو بتایا جائے کہ ملتان بھی پاکستان کا حصہ ہے اور اس خطے کے لوگ بھی ٹیکس دیتے ہیں، بلکہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، لواحقین کو امداد دی جائے، گھر بنوا کر دیئے جائیں اور جو بوسیدہ گھر ہیں اُن کی تعمیر اور مرمت کی جائے۔ اس موقع پر پڑھے لکھے نوجوانوں نے بتایا کہ ملتان بہت قدیم ہے، عمارتیں بھی پرانی ہیں اور یہ عمارتیں تقسیم کے وقت مہاجرین کو کلیم میں ملیں، اب لوگ دو وقت کی روٹی سے تنگ ہیں، روزگار نہیں، کاروبار نہیں، معاشی بحران ہے، وہ کس طرح نئے سرے سے تعمیر و مرمت کروا سکتے ہیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ اندرون شہر کی پرانی عمارتوں کی بحالی کیلئے اٹلی سے حکومت کو بہت بڑی دولت ملی تھی، ہمارا سوال ہے کہ وہ پیسہ کہاں گیا؟ شہر کی بحالی پر اور پرانی عمارتوں کی تعمیرو مرمت پر کیوں خرچ نہیں ہوا؟ ایک تو علاقے پر ظلم ہوا ہے دوسرا حکومت ظلم ڈھا رہی ہے، وزیر اعلیٰ مریم نواز کو جو کہ سرائیکی علاقے سے محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں، سرائیکی میں تقریر اور سرائیکی میں شعر پڑھنے کی کوشش بھی کرتی ہیں، اُن کو چاہئے کہ وہ وسیب کی طرف توجہ دیں اور وسیب کا دورہ کریں، سب سے بہتر اور مناسب حل یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے وعدے کے مطابق بلا تاخیر سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے قدم اٹھائے تاکہ صوبے متوازن ہوں، وسیب کے لوگوں کو اُن کا حق ملے اور پنجاب بڑے حجم کی وجہ سے الزامات سے بچ سکے اور وفاق پاکستان مضبوط و مستحکم ہو۔