اسلام آباد کا موسم بے اعتبار سا ہوگیا ہے۔ پیشگوئی تھی کہ ہفتے کے اوائل میں بارش ہوگی لیکن یہ جمعرات کو ہوئی وہ بھی مختصر سی۔ سرد ہوائیں البتہ چلتی رہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ دن کو دھوپ میں بیٹھیں تو تھوڑی دیر میں نظریں سایہ ڈھونڈھنے لگ جاتی ہیں۔ رات کو البتہ کافی ٹھنڈ پڑتی ہے۔ ہمالیہ کے دامن میں بیٹھے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اوپر کافی برف موجود ہے۔ موسم کے تیور بتاتے ہیں کہ پچھلے کئی برسوں کی طرح ایک دم گرمی پڑے گی اور ہا ہا کار مچ جائیگی۔ وہی ماحولیاتی تبدیلی جسکے بارے میں سائنسدان کافی عرصے سے شور مچا رہے تھے لیکن ان کی وقتِ عمل کی دہائی پر کسی نے کان نہیں دھرا تھا اب ہمارے سر پر ہے۔ اس صدی کی پہلی دہائی میں ماہرین ماحولیات کی ایک تحقیق سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان میں تبدیلی کی وجہ سے دریاوں میں پانی کی سطح سو فیصد اوپر جاسکتی ہے اور صدیوں پرانا نہری نظام تباہ ہوسکتا ہے۔ واضح طور پر یہ ایک بہت بڑی وارننگ تھی اور فیصلہ سازوں سے سنجیدہ عمل کا تقاضا کر تی تھی ۔ لیکن نہ تو ہمارے ہاں اس پر کوئی سنجیدہ گفتگو ہوئی اور نہ ہی ہماری پالیسی ترجیحات میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ دو ہزار دس کے سیلاب نے بہت کچھ واضح کردیا ۔ بیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ ہمارے اپنے پاس اس تباہی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں تھی، باہر سے بھی کوئی امداد نہ آئی۔ سیلاب گزرگیا تو ایوان اقتدار میں بھی خاموشی چھاگئی۔ اگلے دوسال میں بے وقت کی بارشوں سے سندھ متاثر ہوا۔ خود مختار صوبے کی حکومت مگر اس فکر میں تھی کہ مقامی حکومتوں کو اتنے اختیار نہیں ملنے چاہئیں کہ سونے کی چڑیا (کراچی ) ہاتھ سے نکل جائے۔ پچھلے دو سال میں ایک نیا موسمیاتی رحجان سامنے آیا ہے جو ماہرین کے خدشات کی تصدیق کر رہا ہے۔ ملک کے مشرقی حصوں میں مون سون کا دورانیہ ایک کی بجائے دو مہینوں تک پھیل گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو بخشے جانے والے دریا جن کے دامن میں کئی دہائیوں سے ریت اڑ رہی تھی پوری آب و تاب کے ساتھ آ دھمکے۔ مشرقی پنجاب میں سیلاب کا پانی ستلج پر جگہ جگہ بنے بیراجوں کے اوپر سے گزر گیا۔ غیر معمولی مون سون کی بارشوں کے اثرات سے بھارت کی معیشت ابھی تک نہیں نکل پائی۔ ہمارے ہاں کراچی ڈوبنے کی مثال ابھی تازہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کتنا سنجیدہ عمل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک تو کیا یہ تہذیبوں تک کو تباہ کر سکتی ہے۔ اس کا ثبوت وادی سندھ کی تہذیب ہے، جو مون سون کے دورانیے میں کمی کی وجہ سے اجڑ گئی مشرقی دریاوں (ہاکڑہ ) کے خشک ہونے اور دیگر دریاوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے زراعت تباہ ہوئی اور لوگ گنگا جمنا وادی کی طرف ہجرت کرگئے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے ماہرین نے کو دریائے سندھ اور اور ہاکڑہ دونوں دریاؤں کے کنارے سروے میں اس تہذیب کے ناقابل یقین ثبوت ملے ہیں جسکا انحصار زراعت پر تھا اور یہاں ایسے شہر تھے جن میں نکاسی آب ، اناج کے ذخیرے کے لیے گودام ، وزن اور ٹرانسپورٹ کا نظام موجود تھا۔ یہاں کے باشندوں کے عراق اور مصر کے ساتھ بحری روابط تھے اور ان کے پاس پوری طرح سے ترقی یافتہ زبان تھی ، جسے ابھی تک ماہرین سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مورخین کا اصرار ہے کہ آریوں کے حملے سندھ تہذیب کے زوال کا سبب بنے۔ وہ دراز قد اور ستواں ناک والے لوگ تھے جو گھوڑوں پر سواری کرسکتے تھے۔ انکی جنگی مہارت نے دراوڑوں ( مقامی باشندوں) کو جنوب کی طرف دھکیل دیا اور وہ زمین کے مالک بن گئے۔ ان کے بقول دریا سرسوتی جسکا ہندوؤں کے مقدس ادب میں بارہا ذکر ہوا ہے وادی سندھ میں سے ہوکر گزرتا تھا اور بیشتر زراعت اور آباد ی اسی کے کنارے تھی۔ ماہرین ارضیات نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ کسی بڑے زلزلے نے اس خطے کی طرف بہہ کر آنے والے موسمی دریاؤں کا رخ تبدیل کردیا جس کی وجہ سے زراعت چلی گئی ، شہر ترک کردیئے گئے۔ لیکن ایک حالیہ تحقیق جو ماہرین ارضیات اور ماحولیات نے مل کر کی ہے اور سائنسی نقطہ نظر کی حامل ہے اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آریائیوں کے آنے سے بہت پہلے ہی دریائے سندھ کی تہذیب کا خاتمہ ہوچکا تھا اور یہ کہ دریائے سرسوتی کا وجود تھا بھی تو اسکا وادی سندھ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیوگیوسن، جو اس ٹیم کی ممبر تھے ان کا کہنا تھا سیٹلائیٹ سے ملنے والی تصویریں اور ان کی مدد سے تیار کیے گئے نقشے بالکل واضح کر رہے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب کے برباد ہونے کے پیچھے ماحولیاتی تبدیلی ہی تھی۔ لیوگیوسن کے مطابق ، قدیم تہذیب ایک ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوئی تھی اور اس میں اس وقت کی انسانی آبادی کا دسواں فیصد آباد تھا۔ موسمیاتی تبدیل کے مرحلے میں کچھ سال بڑے سیلاب آئے جن کی شدت بعد میں کم ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ خشک سالی نے ڈیرہ ڈال لیا۔ دریا خشک ہوگئے ، زراعت ختم ہوگئی اور لوگ نقل مکانی کرگئے۔ اب ماہرین کو اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ اگلے بیس سال میں ہمالیہ پر صدیوں سے پڑی برف پگھل جائیگی۔ یعنی ملک کے مشرقی حصوں میں بارشیں زیادہ ہونگی، موجودہ دریاوں (ستلج ، راوی، بیاس) میں پانی کی سطح بلند ہوگی اورصدیوں سے سوکھے دریا زندہ ہوجائیں گے۔ یوں ماحولیاتی تبدیلی اور اسکے اثرات کی پوری تصویر واضح ہے اور اس سے نمٹنے کا لائحہ عمل بھی۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم سوکھے سے تر دور میں جارہے ہیں۔ روائتی فصلیں ناکامی کی طرف مائل ہیں۔ نمی میں اضافے کی وجہ سے دستیاب بیج بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے۔ کپاس کی فصل پہلے ہی آخری ہچکیا ں لے رہی ہے ، بے وقت کی بارشوں سے گندم کی پیداوار میں کمی نمایا ں ہے کہ اس سال درآمد کرنا پڑی ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ غذائی تحفظ کا ہے اور اس سے جڑا سوال یہ ہے کہ آیا ہم اس خطرے سے نمٹ پائیں گے یا پھر اپنے آپ کووقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔