وطن عزیز پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ ہے، ہر جانے والی حکومت اپنے گزرے دور اقتدار کے وہ "سنہری" کارنامے گنواتی ہے؛ جسے اس کے حامیوں کے سوا کوئی دیکھ نہیں پاتا لیکن اسے ستم ظریفی کہیںکہ کسی بھی حکومت کے جانے کے بعد سابقہ حکومت اچھی لگنے لگتی ہے، البتہ جھوٹ کے سہاروں پر سب کھڑے ہیں، کس کی بات پر اعتبار کریں؟ مادر وطن میں حالیہ بگارڑ ایک دو برس یا کسی ایک حکومت کی کارستانی نہیں، 76 سال سے کھیلا جانے والا اقتدار کا بے رحمانہ کھیل عام آدمی کو تباہ کر چکا ہے، لہذا اب خوف پھیلائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ کیا یہ وقت سدا قائم رہے گا؟ سوال کا جواب خود تلاش کیجئے، چئیرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں اور 18 ستمبر کو لندن میں "محسن جمہوریت" کا سارا زعم ٹوٹ چکا ہے۔ رہی سہی کسر لاہور کے جلسے نے نکال دی، پیپلز پارٹی لاہور میں اس سے بڑا جلسہ کر سکتی تھی، ن لیگ کیساتھ ایسا کیوں ہوا؟ جواب وقت کی پیشانی پر درج ہے۔ اس تناظر میں ن لیگ کی چیف آرگنائزر اور نواز شریف کی صاحبزادی مخترمہ مریم نواز کی پارٹی کے اقلیتی ونگ کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کے دوران دئیے گئے بیان توجہ طلب ہے۔ حقائق کیا ہیں؟ حالات و واقعات کیا ہیں اور مخترمہ کیا فرما رہی ہیں؟ ذرا غور کیجئے: مریم نواز کا کہنا ہے کہ 21 اکتوبر کو پاکستان کے اچھے دن آ رہے ہیںخوش حالی اور مہنگائی میں کمی واپس آ رہی ہے، مریم نواز نے کہا کہ 2013ء سے 2018 ء تک نواز شریف دور میں مہنگائی کنٹرول میں رہی، ان کو نکالا تو ملک سے ترقی اور خوش حالی بھی نکل گئی، انہوں نے کہا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو ترقی کا وژن دیں گے، اب قرض، مہنگائی اور معاشی بدحالی سے آزاد پاکستان بنائیں گے۔ مینار پاکستان پر ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا خواب دیکھا تھا، اب مینار پاکستان پر معاشی آزادی دلانے کا تاریخی عہد کریں گے۔ نواز شریف 1985ء سے اقتدار میں آتے رہے ہیں، ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں، ماضی میں قرضہ اتارو ملک سنوارو کا پروگرام بھی چلا چکے ہیں، قوم کو نوید سنا چکے ہیں کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے نکالیں گے۔ پاکستان کو ایشئین ٹائیگر بنائیں گے، وغیرہ وغیرہ لیکن آج تک پاکستان کی حالت نہیں بدلی ۔اب اپنی واپسی پر مینار پاکستان میں کس تاریخی معاشی آزادی دلانے کا عہد کرینگے؟ کم وبیش یہی کارکردگی پیپلز پارٹی کی رہی ہے، جو کام چار عشروں میں یہ دونوں جماعتیں نہیں کر سکیں، وہ اب کیسے کرینگی اور عوام ان پر مزید کیسے اعتبار کرے! ان روایت پسند جماعتوں کی کارکردگی یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے وفاقی حکومت کے قرضے لینے کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک کا ہر شہری ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ پاکستان پر اندورونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ 64 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا، وفاقی حکومت نے اگست 2023 میں 2 ہزار 218 ارب روپے کے نئے قرضے لیے تھے، اگر انھوں نے ڈلیور کیا ہوتا، آج نگران حکومت کے دور میں قرض نہ لیے جارہے ہوتے، تاہم پاکستان پر مقامی قرضوں کا حجم 24 فیصد بڑھ کر 39792 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 39 فیصد بڑھکر 24 ہزار 175 ارب روپے تک جا پہنچا ہے، کیا مخترمہ مریم نواز کو 16 ماہ قائم رہنے والی پی ڈی ایم کی حکومت کے کرتوت یاد نہیں، جس حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے، افسوس ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہ کتنی جلدی بھول جاتے ہیں مگر جن کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں وہ بیچاری عوام کیسے بھلا دے کہ اس پر کیسے کیسے اور کیا کیا ستم نہ ڈھائے گئے۔ شومئی قسمت ملک میں ہر موضوع پر بات ہوتی ہے، اگر بات نہیں کی جاتی تو عام آدمی کی نہیں کی جاتی، اگر عام پاکستانی موضوع بحث ٹھرتا؛ آج غریب اس حال میں نہ ہوتا، جسے اس کا مقدر بنا دیا گیا ہے اور وہ ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہے۔ عوام کی مسیحائی کے دعویدار کبھی عملًا کچھ نہیں کرتے، بس انھوں نے باتیں کرنی ہوتی ہیں اور عوام کی حیثیت یہ باتیں سننے کے بعد اپنے اپنے لیڈر کو ہیرو مان کر ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے تک ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مہنگی بجلی پر ہڑتال کے بعد چار مرتبہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی کوئی جسارت نہ کرتا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہیکہ نیپرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی ایک روپے 71 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی، اضافہ اگست کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے، بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق اکتوبر کے بلز میں ہوگا، بجلی مزید 3 روپے 28 پیسے فی یونٹ مہنگی کی گئی ہے،جس سے صارفین پر تقریباً 160 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑیگا۔ ستم بالائے ستم نیپرا نے بتایا کہ بجلی صارفین سے چھ ماہ میں اضافی وصولیاں کی جائیں گی جبکہ صارفین سے رواں ماہ سے وصولیاں شروع ہوں گی، یہ سارا ظلم آئی ایم ایف کی وجہ سے اگر جاری ہے، پھر آئی ایم ایف کے کہنے پر اشرافیہ پر ٹیکس کا بوجھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟ معشیت کی بحالی کی ساری باتیں محض کہنے کی ہیں، عملاً اشرافیہ کا کلب شاد و آباد ہے، رہی سہی کسر وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کیس کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کر کے نکالنے کی ٹھان لی ہے۔ تاحال کسی کو شک ہے کہ نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول، فصل الرحمان، ایمل ولی خان، محمود خان اچکزئی وغیرہ وغیرہ نے دودھ شہید کی نہریں بہانی ہیںتو وہ اپنی حالت پر ترس کھائے اور ہوش و حواس میں جان لے کہ وفاقی حکومت آئندہ ہفتے نظر ثانی دائر کرے گی، نظر ثانی میں نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کی جائے گی، اس سلسلے میں وزارت قانون نے نظر ثانی کا مسودہ تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ صاحبو! ویسے کمال ہوگیا، وطن عزیز میں جتنے عجیب کام ہیں سب ہمارے مسیحا کرتے ہیں۔ لہذا سر تسلیم خم آنجناب نواز شریف آئینگے: مینار پاکستان پر ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا خواب دیکھا تھا، اب مینار پاکستان پر معاشی آزادی دلانے کا تاریخی عہد کریں گے، وطن عزیز پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ ہے، اسی میں جینا سیکھیے یا۔۔۔۔۔؟