یکم مارچ کو فاروق ایچ نائیک اور کامران مرتضی سپریم کورٹ میں کھڑے پانچ رکنی بنچ سے درخواست کر رہے تھے کہ الیکشن کی تاریخ دینے والے کیس کی سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کر دی جائے مگر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا انتخابات کے لیے وقت بہت کم رہ گیا ہے، پینتالیس دن پہلے ہی ضائع ہو چکے ہیں،نوے دن کے اندر انتخابات ہونے ہیں،لہذا فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔سپریم کورٹ نے سارا دن سماعت کرنے کے بعد اُسی روز فیصلہ سنایا تاکہ جلد از جلد انتخابی عمل کی پیش رفت کا آغاز ہو سکے۔ فیصلہ آئے سات روز ہو گئے، اب ایسا لگتا ہے بس سپریم کورٹ ہی کو انتخابات کے انعقاد کی جلدی تھی، باقی کسی کو نہیں۔ گورنر خیبر پختونخوا نے تین روز تو محض اس لیے گزار دیے کہ الیکشن کمیشن کا خط وہ سیکرٹری آ کے کھولیں گے جو چھٹی پہ ہیں۔ پیر کو سیکرٹری آ بھی گئے تو سار ا دن مصروفیت کے باعث خط نہ کھل سکا۔پھرشام کو خط کھلا تو جوابی خط تیار ہوا۔جوابی خط سے اندازہ ہوا کہ گورنر صاحب کو اب بھی کوئی جلدی نہیں ۔ الیکشن کمیشن کو لکھا آپ سات مارچ کو آ جائیں اورکوئی مصروفیت ہو تو بھلے آٹھ کو آ جائیںگویا جلدی کی کوئی بات نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے جلد از جلد انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھل کے مخالفت کر دی ہے۔ گویا عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عملدآمد نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ گورنر نے بادل نخواستہ مشاورتی عمل کا آغاز تو کردیا ہے لیکن ان کی جماعت انتخابات کے انعقاد کے حق میں نہیں۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کی تاریخ دینے کے معاملے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام،جماعت اسلامی، الیکشن کمیشن، صدر پاکستان، گورنرز، صوبائی حکومتوں اور وکلا تنظیموں کے نمائندوں سمیت دس سے زیادہ وکیلوں کو سنا گیا ۔ کسی ایک نے بھی عدالت میں یہ عذر پیش نہیں کیا کہ سکیورٹی کے مخدوش حالات کے باعث انتخابات نہیں ہو سکتے ، کسی ایک وکیل نے بھی یہ نہیں کہا کہ نوے دن کے اندر انتخابات ہونا آئینی تقاضا نہیں ہے اور کسی ایک وکیل نے بھی یہ نہیں کہا کہ پیسے نہ ہونے کے باعث الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔ہاں صرف فاروق ایچ نائیک نے اس حد تک کہا کہ آئین میں الیکشن کے انعقاد کے لیے فنانس کرنے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔کسی ایک وکیل نے بھی عدالت میں یہ نہیں کہا کہ سکیو رٹی کے حالات ایسے ہیں کہ انتخابات ہو ہی نہیں سکتے ،صرف یہ کہا گیا کہ گورنر خیبر پختونخوا نے سکیورٹی کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے۔ حیرت ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے وہ موقف اختیار کیا جو اُن کے وکلا کی جانب سے عدالت میں موضوع ہی نہیں تھا۔رانا ثنا اللہ بولان کی پہاڑیوں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کو پنجاب میںانتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے کی کوشش میں ہیں۔پچھلے بیس سال میں پاکستان میں کب ایسے انتخابات ہوئے ہوں گے کہ جب دہشت گردی کے اکا دکا واقعات نہ ہو رہے ہوں۔ اب تو پھر بھی حالات مجموعی طور پر بہتر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن فنڈز کی عدم دستیابی کو انتخابات میں تاخیر کے لیے ایک جواز کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ مگر اس سوال کا جواب شاید ان کے پاس نہیں کہ اگر چھ مہینے کے لیے انتخابات میں تاخیر کر بھی دی جائے تو چھ مہینے بعد پیسے کہاں سے آ جائیں گے۔ معاشی حالات میں بہتری کے تو امکانات دکھائی دے ہی نہیں رہے۔ نہ جانے حل کیا ہے۔ پاکستان میں کیا حالات آ گئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سب سے بڑی بحث یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملد آمد ہو گا یا نہیں۔انتخابات کا فیصلہ آنے کے بعد بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ اداروں کے وقار پر اس سے بڑا حملہ کیا ہو گا کہ ان کے فیصلوں پہ عملدرآمد ہی نہ کیا جائے ۔ عملدرآمد کی بجائے اس پر حملہ کر دیا جائے۔جب ادارے کا وقار ہی باقی نہ رہے گا تو کل کوئی کیسے انصاف کے لیے اس ادارے کا دروزاہ کھٹکھٹائے گا۔کون اس پہ بھروسہ کرے گا۔ عمران خان پر ایف آئی آر ز کی تعداد 76 ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے تمام مسائل کا یہی حل ہے۔ عمران خان پر دہشت گردی کی جتنی زیادہ ایف آئی آرز ہوں گی ملک کے مسائل اتنی ہی جلدی حل ہوں گے۔ کیسے کیسے دانشوروں سے پالا پڑا ہے۔ یہ لوگ ملک کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیںجو اپنی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں گھمبیر ترین حالات میں بھی محض اپنے سیاسی مخالفین کے گرد شکنجہ کسنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ جنہیں معاشی محاذ پر روزانہ شکست کا سامنا ہے مگر کم از کم دس وزرا ء روزانہ عمران خان کے خلاف جملے بازی کرنے کے لیے پریس کانفرنس کے انعقاد پر مامور ہیں۔حالات کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ن لیگ کے سینئر ترین وزراء کے ٹویٹر پر چھوڑے جانے والے چٹکلوں اور جملے بازیوں سے بخوبی ہوتا ہے۔ خواجہ آصف، سعد رفیق اور احسن اقبال جیسے زیرک سیاستدان بھی محض جملے بازیوں پہ لگے ہیں کہ جیسے عوام کے معاشی مسائل انہی جملوں سے حل ہوں گے۔ کل ہی خواجہ آصف فرما رہے تھے کہ عمران خان عوامی حمایت کھو چکے ہیں، رانا ثنا اللہ روز کہتے ہیں عوام نے 26 نومبر کے کال مسترد کر دی تھی، کہتے ہیں کہ آج عوام نے جیل بھرو تحریک کی کال مسترد کر دی ہے، کہتے ہیں عوام عمران خان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ واقعی مانتے ہیں کہ عوام عمران خان کے ساتھ نہیں تو پھر یہی سب سے بہتر وقت ہے،ہمت دکھائیں، فائدہ اٹھائیں، الیکشن کرائیں اور حکومت بنائیں۔