پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے 2024 کے عام انتخابات کے بارے میں اپنی جائزہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر حتمی نتائج کی فراہمی، مطابقت اور اعلان میں تاخیر کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔ یہ رپورٹ پچھلے انتخابی ادوارکے مقابلے میں شفافیت کے سکور میں کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 کی جائزہ رپورٹ آزادانہ تجزیے پر مبنی ہے جسے سول سوسائٹی کے مختلف ماہرین نے ترتیب دیا ہے، ان میں سیاستدان، وکلاء ، کارکن، ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ فوجی حکام کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر آگاہ نوجوان شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق ای ایم ایس کے ناکارہ ہونے کی صورت میں نتائج کے اجراء کو چودہ روز کی مدت میں یقینی بنانے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کی کمی اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت پولنگ کے 14 دنوں کے اندر فارم 45، 46، 48 اور 49 کی دستخط شدہ کاپیاں شائع کرنے میں ناکامی کی نشاندہی کی گئی ہے۔پلڈاٹ نے سفارش کی ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کو ہر کیس کی بنیاد پر تنازعات حل کرنے کی اجازت دی جائے۔ الیکشن ٹربیونلز کو انتخابی پٹیشنوں پر فیصلہ کرنے کے لیے 180 دن کی قانونی ڈیڈ لائن دی گئی ہے لیکن بہت سی پٹیشنوں کا فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت لگنے کا خدشہ ہے۔پلڈاٹ نے پنجاب میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد بنائے گئے آٹھ کے مقابلے میں صرف دو الیکشن ٹربیونلز کی دستیابی پر گہری تشویش ظاہر کی اور اس بار الیکشن کمیشن کی جانب سے نو ٹربیونلز کی درخواست کی گئی تھی۔ پلڈاٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ تمام انتخابی درخواستوں کا 180 دن کی قانونی ڈیڈ لائن کے اندر فیصلہ کیا جا سکے۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں انتخابات کے شیڈول میں تاخیر، سیاسی سختیاں، نگراں حکومتوں اور لیول پلئینگ فیلڈکے فقدان اور قبل از انتخابات کے مرحلے کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی خرابی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انتخابی نتائج پر معترض پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس کی ویب سائٹ پر جاری کردہ فارم 45 میں ٹیمپرنگکی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر علی خان نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر فارم 45 شائع کرنے کے بعد اب انتخابات میں دھاندلی کے ثبوت مزید واضح ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے پاس اب ان حلقوں میں دھاندلی کے شواہد موجود ہیں جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو راتوں رات نتائج بدل کر کے ساتھ شکست دی گئی، ای سی پی کے فارم 45 کا تمام امیدواروں کے پاس دستیاب اصل فارمز سے موازنہ کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں ووٹروں کی مجموعی شرح 40 فیصد رہی لیکن کچھ جگہوں پر ووٹ ٹرن آؤٹ 100 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ ای سی پی کے فیصلوں کے خلاف ٹربیونلز میں جائیں گے اور چوری شدہ عوامی مینڈیٹ کی واپسی تک احتجاجی مظاہرے کریں گے۔انتخابی دھاندلی ہر انتخابات کے بعد پاکستان میں زیر بحث رہی ہے۔کبھی ،پاکستان قومی اتحاد ، کبھی تحریک انصاف، کبھی جے یو آئی اور کبھی پیپلز پارٹی کو انتخابی نتائج پر اعتراض رہا۔مسلم لیگ ن پر الزام رہا کہ وہ دھاندلی سے فائدہ اٹھانے والی جماعت رہی ہے۔ اس سلسلے میں آئی جے آئی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ تمام جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود انتخابی شفافیت یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کا کردار قابل قدر نہیں رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اعظم نذیر تارڑ نے انتخابی دھاندلی کے معاملے پر پارٹی میں وسیع مشاورت کے متعلق بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے الزامات سے نمٹنے کے لیے قانونی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت میں اپنے کیس کا مکمل دفاع کریں گے۔ پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں لیکن ہم نے مینڈیٹ کو قبول کیا ۔ سیاسی جماعتوں کی بابت دیکھا گیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر دھاندلی کے بارے میں جس موقف کا اظہار کرتی ہیں بطور اپوزیشن ان کا نکتہ نظر اس کے متضاد ہوتا ہے۔انتخابی عمل کی غیر شفافیت اور الیکشن کمیشن کی کوتاہی ایک بار کا مسئلہ نہیں۔ ہر انتخاب کا متنازع ہونا ملک میں جمہوریت کے متعلق بد گمانی پیدا کر رہا ہے، اسی طرح پاک فوج اور دیگر اہم اداروں کو بسا اوقات الزامات کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے حالانکہ یہ بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل قانون اور آئین کے مطابق انجام دے ۔حالیہ انتخابات پر رزلٹ ٹیمپرنگ ، غیر منصفانہ طور پر ہارنے والوں کو کامیاب کرنے، جعلی نتائج کی وجہ سے ٹرن آوٹ کی غلط بیانی ،انتخابی نظام کا غیر فعال ہونا اور نتائج جمع کرنے کے نظام کی خامیوں جیسے داغ لگے ہیں۔ حکومت کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ ایک بار تفصیل کے ساتھ انتخابی نتائج اور انتخابی نظام کے آڈٹ کا انتظام کرے۔یہ آڈٹ پارلیمنٹ خود کرے تاکہ اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب عوام کے نمائندوں سے وصول کیا جا سکے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کے لئے سب سے پہلے نظام کو شفاف بنانے اور پارلیمنٹ کی حرمت بحال کی ضرورت ہے۔حکومت اور اپوزیشن کو انتخابی عمل کی ساکھ بحال کرنے کے لئے وقتی مفادات سے بالا تر ہو کر طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔