دوستو! آج آٹھ ستمبر ہے، بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ آج پھر آٹھ ستمبر ہے۔ وہ آٹھ ستمبر جب آٹھ سال قبل پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے باقاعدہ فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ آج سے وطنِ عزیز کی سرکاری، درباری، دفتری، امتحانی، اِمکانی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی لیکن فیصلوں سے کیا ہوتا ہے؟ یہ فیصلہ تو 1832ء میں برِصغیر کے مجموعی سروے کے بعد انگریزوں نے بھی فرمایا تھا۔ جب اس اَمر کا ایک محفل میں تذکرہ ہوا تو انگریزوں کے ایک خیر خواہ مخواہ صاحب فرمانے لگے: اُردو کے نفاذ کا فیصلہ تو انھوں نے فارسی کو نُکرے لگانے کے لیے صادر فرمایا تھا۔ نہایت احترام سے عرض کی کہ پھر ذرا یہ بھی فرما دیجیے کہ اس زمانے میں مغلیہ خاندان کے چشم و چراغ اور برِ صغیر میںفارسی کے سب سے بڑے رکھوالے بہادر شاہ ظفر کو اُردو شاعری کرنے کا فیصلہ کس نے صادر فرمایا تھا؟پھر لگے ہاتھوں نظیر اکبر آبادی کی عوامی شاعری، 1775ء میں جان گلکرسٹ کی مرتب کردہ اُردو لغت، 1800ء میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کے اُردو تراجم، غالب جیسے مشکل پسند اور ہر صاحبِ دل کے دل میں اُتر جانے والی ’باغ و بہار‘، 1822ء میں کلکتہ ہی سے جاری ہونے والے پہلے اُردو اخبار ’جامِ جہاں نما‘، ازاں بعد دہلی اُردو اخبار، سید الاخبار، کوہِ نور، نیز پورے ہندوستان سے کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے اُردو اخبارات کا فیصلہ کس کس نے اور کیوں صادر فرمایا تھا؟ چلیں اس بات کو بھی چھوڑیں، دنیا بھر میں بولی جانے والی سات ہزار زبانوں میں دوسرے یا تیسرے نمبر کو بھی پسِ پُشت ڈال لیں۔ اس زبان میں تخلیق کیے گئے عظیم ادب کو بھی جانے دیں۔اس بات کا کیا کریں گے کہ آج کسی خِطے کی حقیقی زبان جانچنے کا سب سے بڑا طریقہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ اس کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جو زبان بولتا ہے، وہی اس کی اصلی اور فطری زبان ہے۔ اصل بات یہ ہے دوستو! کہ بدتمیزی، حرام خوری، ہٹ دھرمی، بدمعاشی اور جہالت کی طرح ذہنی غلامی کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل بگڑتے بلکہ بگاڑے حالات سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہاں تو جھوٹ، فراڈ، لاقانونیت، دھونس، دھاندلی، وعدہ خلافی اور مکاری کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ ہمیشہ سچ، شرافت، ایمانداری، راست بازی، حلال خوری، بھلے مانسی اور حب الوطنی کو باور کرایا جاتا ہے کہ اپنی حد میں رہو، مجھے یہاں کسی اور موقع کے لیے کہا گیا اپنا ایک پنجابی قطعہ نہ جانے کیوں یاد آ رہا ہے کہ: دل دی نکرے آ کے بہہ گئی ، حد نئیں ہو گئی ؟ سب شرافت رکھی رہ گئی ، حد نئیں ہو گئی ؟ دل دی دھڑکن تیز ہوئی تے اُڈ پُڈ جانی ہولی جئی میرے کن وچ کہہ گئی ، حد نئیں ہو گئی ؟ ذرا سوچیں کہ آج انگریزوں سے ہمارا باقاعدہ ربط قائم ہوئے سوا چار سو سال ہونے کو آئے ہیں، ان کے باقاعدہ تسلط کی کہانی بھی پونے دو سو سال پرانی ہے، انھیں یہاں سے رخصت ہوئے بھی پون صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ۔ اس کو بھی چھوڑیے، ہمیں ان کی تلوے چاٹ قسم کی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے، قائدِ اعظم کے واضح فرمان اور تہتر کے آئین کے آرٹیکل نمبر 251 کے دو ٹوک حکم کے باوجود ہمارے دفاتر، تعلیمی اداروں اور چھوٹے بڑے امتحانات میں ہمارا تمسخر اڑاتی، یہ انگریزی بی بی پوری طرح پنجے گاڑے بیٹھی ہے۔اس کے باوجودہمارے اٹھانوے فیصد لوگ اس زبان میں بازار سے دَھنیا، پودینہ اور مِٹھے خریدنے کی استطاعت پیدا نہیں کر سکے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ جس زبان میں ماں سے لاڈ نہ کیے جا سکیں، جس زبان میں بھائی کی شادی پر گھوڑیاں نہ گائی جا سکیں، جس زبان میں بہن، بیٹی کو رخصت نہ کیا جا سکے، جس زبان میں ڈھنگ سے سانس نہ لیا جا سکے، جس زبان میںٹی وی چَینل نہ بنائے جا سکیں، جس زبان میں جُگت نہ ماری جا سکے حتیٰ کہ جس زبان میں منھ بھر کے گالی نہ دی جا سکے، وہ ہماری زبان کیسے ہو سکتی ہے؟ آج اپنے ارد گرد نظر دوڑا کے دیکھ لیں کہ کون سے دفتر میں عوامی مسائل یا ملکی وسائل پہ انگریزی میں بات ہوتی ہے؟ لیکن مقابلے کا امتحان غیر ملکی زبان میں ہونا ضروری ہے کیونکہ کارکردگی کے بغیر عام آدمی پہ رعب اور بوجھ ڈالنے کی یہی ایک ترکیب رہ گئی ہے۔ پھر ذرا سروے کر کے بتایا جائے کہ وطنِ عزیز میں کتنے مریض اپنی بیماریوں اور مسائل کا حال انگریزی میں بیان کرتے ہیں؟ اور کتنے ڈاکٹر انھیں سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں؟ اگر جواب صفر ہے تو کیا انگریزی میں تعلیم صرف میڈیکل ریپ کے حکم پر مہنگی اور غیر ضروری ادویات نہ سمجھ میں آنے والے رسم الخط میں لکھنے نیز بلا ضرورت اور جعلی ٹسٹ کروانے کے لیے رکھی ہوئی ہے؟ ذرا افغانستان جیسے ملک کی اصول پسندی اور غریب پروری ملاحظہ ہو کہ حال ہی میں باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ پورے ملک میں پروفیسر دو سو، متخصص (سپیشلسٹ) ڈیڑھسو اور عام معالج ایک سو افغانی(مقامی کرنسی) سے زیادہ فیس وصول نہیں کر سکے گا۔ خلاف ورزی پر سفارش تو دُور کی بات، تمام عمر پریکٹس کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔ یہ حکم نامہ ان کی اپنی زبان میں جاری ہوا ہے اس لیے معالج مریض دونوں کو اچھی طرح نہ صرف سمجھ میں آ گیا ہے بلکہ باقاعدہ نافذالعمل بھی ہو گیا ہے۔ چھان پھٹک کے بتا دیں کہ وطنِ عزیز میں آڑھت، منڈی، مسجد کا وعظ، سکول کالج میں استاد کا درس، ٹھیکے دار اور انجنیئرکے معاملات، شادی بیاہ کی رسومات، رخصتی، مہندی،مکلاوے کے گیت، بیمار کی عیادت، فوت شدگان کی تعزیت، بقرعید پہ بکروں چھتروں کا بھاؤ تاؤ، فلمیں ڈرامے، خبریں، افواہیں، چغلیاں، تھانے کی تفتیش، مجرم کا مؤقف، رشوت، سفارش کے سیاپے، ان میں کون سا کام ہے، جس کے لیے غیر ملکی زبان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ اب تو کھابوں کے نام بھی مقامی عوامی زبانوں کی طرف مائل ہیں۔ چاروں طرف تندوری، تڑکہ، پنڈ، ہانڈی، پٹاخہ چرغا، چٹخارا وغیرہ کی دھوم ہے۔ افواجِ پاکستان کے حوالے ہی سے بتایا جائے کہ کون سا شہید وقتِ نزع انگریزی میں خدا کو یاد کرتا ہے اور کتنے لواحقین اپنے جذبات کا اظہار اس بدیسی زبان میں کرتے ہیں؟ پھر ذرا عدالتوں کچہریوں کو دیکھ لیں کہ وہاں وکیلوں کے دلائل، گواہان اور مجرمان کے بیانات، حتیٰ کہ ججوں کی گفتگو (جسٹس جواد ایس خواجہ کے بقول تو نوے فیصد ججوں کو انگریزی نہیں آتی) کیونکہ امتحان تو رَٹا لگا کے پاس ہوتے ہیں۔ سب معاملات اُردو یا مقامی زبانوں میں طے پاتے ہیں۔ ہم تو منصفین کے اس عمل کو بھی حب الوطنی پہ محمول کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھر ان قریوں میں قانون کی انگریزی میں تعلیم، شاہ کالا انگریزی لباس اور نہ سمجھ میں آنے والی زبان محض فیس بڑھانے، فیصلے لکھنے اور سادہ لوح لوگوں پہ دھونس جمانے کے لیے ہے؟ اگر ہم نے یہی عمل برقرار رکھنا ہے تو دنیا بھر میں ہونے والی کی تضحیک کو ماریں گولی، عوامی مفاد کو بھی پسِ پُشت ڈال کر اپنا ترانہ کچھ اس طرح کر لیں : مَیں بھی گونگا ، تُو بھی گونگا ، گونگا کل جہان جس کی کوئی بات نہ سمجھے وہ ہے پاکستان