نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کیخلاف افغان حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے، نگران وزیراعظم نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے درست کہا کہ عبوری افغان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا، خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری ملوث تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا واضح ذکر کیا گیا ہے، پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو افغان مہاجرین کی میزبانی کا کیا صلہ ملا؟ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان نے دہشت گرد کارروائیوں سے متعلق معلومات افغان حکومت کو فراہم کیں، دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان عبوری حکومت کو بھیجی گئی، چند مواقع پر دہشت گردوں کی سہولت کے بھی واضح ثبوت سامنے آئے مگرافغان حکومت نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کیخلاف افغان حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے، گزشتہ دو سالوں میں افغان سرزمین سے دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہوا اور سرحد پار دہشت گردی کی وجہ سے 2ہزارسے زائدپاکستانی شہیدہوئے۔ نگراں وزیر اعظم نے افغان حکومت سے درست مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ملک سے بھی غیر قانونی مقیم پاکستانیوں کو ہمارے حوالے کرے۔ موجودہ افغان حکومت کو برسراقتدار لانے میں پاکستان کی سابق حکومت نے اہم کردار ادا کیا، اسی بناء پرنگران وزیر اعظم نے یہ کہا کہ پاک افغان تعلقات مشترکہ مذہب، تاریخ، ثقافت، بھائی چارے پر مبنی ہیں، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی 4 دہائیوں تک میزبانی کی، گزشتہ 40 برس سے افغان بھائیوں کا ساتھ نبھایا، ہم افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو جاری رکھیں گے۔ بلاشبہ پاکستان نے اب داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اب تک واپس جانے والے غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی تعداد 2 لاکھ 52 ہزار کے قریب ہے، رضاکارانہ طور پر ڈھائی لاکھ افراد کا واپس جانا معمولی بات نہیں، تمام غیر ملکی خاندانوں کو عزت کے ساتھ واپس جانے کے مواقع فراہم کیے گئے، توقع یہی تھی کہ افغان حکومت بھی واپس جانے والوں کیلئے احسن اقدامات کرے گی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا؟ افغان رہنمائوں کے دھمکی آمیز بیانات افسوسناک ہیں، دہشت گرد افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں، مطلوب سرکردہ دہشت گردوں کی فہرست افغانستان کے حوالے کی گئی ہے، اب پاکستان نے افغانستان کو پاکستان یا کالعدم ٹی ٹی پی میں سے ایک کو چننے کا کہا ہے۔ پاکستان کا یہ موقف درست اور بجا ہے کہ افغان حکام کی الزام تراشی اور دھمکی آمیز بیانات نے پاکستانی غیور عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، افغان عبوری حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں ریاستیں خود مختار ہیں، ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کے اوپر کسی قسم کا دبائو نہیں یہ ذہن سے نکال دیں کہ امریکا یا کسی اور ملک کا پاکستان پر دبائو ہے، پاکستان نہ کسی کا دبائو لیتا ہے نہ لے گا، کسی بھی ملک کاکوئی سفیر مجھ سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا۔ انوار الحق کاکڑ نے یہ بات کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ پاکستانی پشتونوں کا اتنا ہی حق ہے جتنا پنجابی، بلوچی، سندھیوں کا ہے، کسی کے خلاف کوئی امتیازی سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا، میں خود پشتون ہوں،کسی پشتون کوٹارگٹ کرناقبول نہیں، اس طرح کی حرکات میں ملوث افراد کوسخت سزادی جائیگی تاہم وزیر اعظم کے نوٹس میں یہ لانا بھی ضروری ہے کہ پنجابی ، بلوچی ، سندھی اور پشتون قوم کے ساتھ ساتھ سرائیکی اور ملک میں بسنے والی دیگر قوموں کا نام لینا بھی ضروری ہے کہ وہ بھی پاکستانی ہیں اور حکومت پاکستان میں نادرا اور مردم شماری ریکارڈ میں ان کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ تاریخی حوالے سے دیکھاجائے تو افغانستان میں بیرونی مداخلت نے مسئلے کو خراب کیا، برطانیہ کی ا س علاقے پر علمداری رہی ،روس امریکہ نے افغانستان میں پنجے گاڑے ،دولت کے بل بوتے افغانوں سے جہاد کرایا جاتا رہا ،انگریز سامراج نے افغانستان کو کنٹرول کیلئے سابقہ صوبہ پشاور اس شکل میں بحال کیا کہ وسیب کے شہر ڈی آئی خان ، بنوں اور ٹانک نئے بننے والے صوبہ سرحد میں شامل کردیئے ،انگریز کو صوبہ کا نظام ونسق چلانے کیلئے پر امن خطہ درکار تھا اسی بنا پر ڈیرہ اسماعیل خان کو قربان کیا گیا ، وسیب کے لوگ آج سزا بھگت رہے ہیں ، اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، سرائیکی وسیب کے کروڑوں لوگ انگریز سامراج غلط فیصلوں کی سزا دو صدیوں سے بھگت رہے ہیں ۔ انگریز سامراج کی طرف سے غلط صوبائی حد بندیوں کو بھی ختم کرنے کی طرف توجہ دینے اور تمام قومی معاملات کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں جہاں خامیاں ہیں ان کا درست ہونا ضروری ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ ڈیرہ اسماعیل خان دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک عظیم تہذیبی ورثے کا نام ہے، یہ خطہ صدیوں سے سرائیکی تہذیب کا مرکز ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہاکہ 9 نومبر 1901 ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ایک نیا صوبہ سرحد قائم کیا تو لوگوں کی منشاء و مرضی کے خلاف اسے زبردستی صوبہ سرحد کا حصہ بنادیا،جس کے خلاف بہت بڑا احتجاج ہوا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں بڑے بڑے سرائیکی شاعر، ادیب اور دانشور پیدا ہوئے ،بر صغیر کی تاریخ میں ہندوستان کے شہنشاہ شیر شاہ سوری کا بہت بڑا نام ہے، وہ پہلا شخص تھا جس نے سولہویں صدی میں ہندوستان کو مواصلاتی سہولتوں سے آشنا کیا اور سڑکوں کا جال بچھایا ۔ اس کا تعلق ضلع ٹانک کی بستی روڑی سے تھا۔ سرائیکی رہنما ظہور دمانی شہید کا تعلق بھی اسی ضلعے سے تھا، یہ خطہ صدیوں سے زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی رہا ہے، لیکن دہشت گردوں نے اس خطے کے اصل تہذیبی و ثقافتی پہچان کو مسخ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ پشتون ہیں وہ معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ان کو پاکستان کے جغرفیہ کا اچھی طرح علم ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کاگیٹ وے درہ گومل ہے ،دہشت گردی کے خاتمے کیلئے درہ گومل کو بند کرنا ضروری ہے ۔