جس طرح شیو کمار بٹالوی اداسیوں کا شاعر ہے، بلراج ساہنی مجھے اداس کر دینے والی اداکاری کے باعث اچھے لگے۔ راولپنڈی میں پیدا ہونے والے بلراج ساہنی بھارتی سینما میں ایک عظیم ہدایت کار و ادا کار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔میرے سامنے اس کا ’’سفرنامہ پاکستان‘‘ ہے۔خود ہی دیکھ لیں وہ کیا لکھتے ہیں: ’’10اکتوبر 1962ء کی صبح ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی میں جالندھر سٹیشن کی خوشگوار چہل پہل دیکھتا رہا۔ دل میں خیال آیا: ہم پنجابی صحت مند لوگ ہیں‘ لیکن ڈھیلے اور سست سست سے۔ اس وقت اہل جالندھر میٹھی نیند سوئے پڑے ہوں گے‘ یا شاید ابھی ابھی جاگے ہوں‘‘۔ ’’پلیٹ فارم پر بہت سے لوگ کیلے خرید رہے تھے‘ پاکستان میں اچھی قسم کا کیلا نہیں ہوتا۔ یہاں بھائو آٹھ آنے فی درجن تھا اور لاہور میں تین روپے درجن۔ میں نے بھی پانچ درجن خرید کر رکھ لئے۔ اپنے میزبان کے لئے سوغات کا کام دیں گے‘‘ ’’پاکستان کا پہلا سٹیشن واہگہ آ گیا‘ میں پلیٹ فارم پر اترا۔ ایک سفید داڑھی والے بزرگ نے کھڑکی میں امڈ کر ہاتھ ملایا اور کہا ’’صاحب میری عمر کے آدمی کو فلمیں دیکھنے کا بہت کم شوق ہوتا ہے مگر آپ کی فلمیں ہمیشہ دیکھتا ہوں‘ آپ انسانی جذبات کو حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آپ کی فلمیں اخلاقی اور تمدنی اعتبار سے بلند ہوتی ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنے انسانی معیار کو کبھی مت چھوڑیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے‘‘۔ ’’لاہور سٹیشن کے گیروے رنگ کے برج دیکھ کر نجانے کیا ہوا۔ یوں لگا جیسے ان کے لئے میری روح جنم جنم سے ترس رہی تھی۔ دبے ہوئے چشمے میں سے پیار اور احترام پھوٹ نکلا۔فٹ بورڈ سے پائوں نیچے رکھنے سے پہلے میں نے ہاتھ کے ساتھ زمین کو چھو کر پرنام کیا‘‘ ’’پرنسپل گورنمنٹ کالج ڈاکٹر نذیر احمد نے مجھے اپنا بیڈ روم دیدیا۔ کہنے لگے: یار میں نے وارڈ روب نہیں رکھی۔ دراصل میرے پاس اتنے کپڑے ہی نہیں۔ یونہی خواہ مخواہ کون مصیبت لے۔ تجھے ضرورت ہو تو تکلف نہ کرنا۔ منگوا دوں گا‘‘۔ یہ سن کر مجھے کتنا اچھا لگا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے لئے کبھی میں ایسے پرنسپل کا بھی تصور کر سکتا تھا؟‘‘۔ ’’میں کتنا خوش ہوا تھا! پاکستان آنے کا سب سے بڑا لالچ مجھے یہی تھا۔ جی بھر کر اپنی پنجابی بولی سنوں۔ ماجھی‘جھنگوچی، پوٹھوہاری‘ میری اپنی ماں بولیاں جن سے جدا رہ کر میں نے زندگی کا اتنا بڑا حصہ گزار دیا تھا۔ کتنا بڑا گناہ کیا میں نے!‘‘ ’’وہ ضرور پردیسوں میں میری آوارہ گردی کے باعث زنگ آلود پنجابی بول چال پر ہنسا ہو گا‘ میں نے چائے کا مطالبہ گاہکوں کی طرح نہیں بلکہ فقیروں کے انداز میں کیا تھا‘‘ ’’مویشی ہسپتال(ویٹرنری یونیورسٹی لاہور) والی سڑک پہ پہنچ کر اپنے انگریزی کے ہر دل عزیز پروفیسر مدن گوپال سنگھ جی کی کوٹھی دیکھی۔ جس کی ممٹی پہ ’’اوم‘‘ اسی طرح کھلا ہوا تھا۔ وہ خود تقسیم کے فسادات میں مارے گئے تھے‘‘ ’’ہندوستان ہزاروں برس سے فلسفے کا گھر رہا ہے۔ انسان کیا ہے؟ فطرت اور پرماتما کیا ہے؟ ان سوالات کے جواب ڈھونڈنا نہ صرف ہمارے دیس کے عالموں بلکہ عوام کا بھی ہمیشہ سے مشغلہ رہا ہے۔یورپی تنقید نگاروں نے ہماری اس عادت کی کافی ہنسی اڑائی ہے۔ اسے ہمارا جمود‘ جہالت اور مفلسی کا باعث بتایا ہے کہ یہ لوگ کیسے ترقی کر سکتے ہیں‘ انہیں تو اس دنیا سے زیادہ اگلی دنیا عزیز ہے‘‘ ’’لائلپور سے چار میل ادھر گاڑی کا پہیہ بیٹھ گیا۔ سڑک کی ایک جانب کوہ نور مل کا پھاٹک تھا۔ نذیر نے بتایا کہ اب لائلپور میں 20سے زیادہ کپڑا ملیں بن گئی ہیں جو نہ صرف پاکستان کی ضرورت پوری کرتی ہیں بلکہ بہت سا کپڑا بیرون ملک برآمد کرتی ہیں۔اس مل کی اتنی ہی بڑی دوسری شاخ راولپنڈی میں بنائی گئی ہے‘‘۔ ’’بڑا ہی سوہنا اور بانکا چودھری چارپائی پر بیٹھا تھا۔ لباس وہی جو میں بچپن میں اپنے نانا جی کا دیکھا کرتا تھا۔ اونچے شملے والی کلے کے بغیر پگ‘ سفید قمیص ‘ واسکٹ‘ کمر پہ چادر اور سب سے شان دار چیز کندھے پر ڈالا ہوا سفید اور کڑک دار کپڑا۔ اب مجھے ساندل بار پہنچ جانے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا‘‘۔ ’’وارث شاہ کی ہیر دنیا کے عظیم شاہکاروں میں سے ہے۔ وارث شاہ کی زبان میں پھوٹھتے چشموں جیسی نرمی اور خود داری ہے۔ وہ ہر قسم کے شاعرانہ صنائع بدائع سے آراستہ ہونے کے باوجود کبھی سست اور بوجھل نہیں ہوتی۔ شاعری کی کوئی بھی کسوٹی لے لیں۔ وارث شاہ کی ہیر امتحان میں پوری اترے گی‘‘۔ ’’شہری زندگی کو مجموعی اعتبار سے خوب صورت اور ستھرا بنانے کی ضرورت میرے خیال میں پنجابیوں کو ابھی محسوس ہی نہیں ہوئی‘‘۔ ’’تقسیم نے پنجابیوں کی دھرتی ماں کے پیٹ پر چھری کی نوک سے صرف لکیر ہی نہیں کھینچی بلکہ اسے بہت گہرائی میں چیرا ہے۔ نسوں اور گوشت کے ساتھ ساتھ یہ جیون دھاگے بھی کٹ گئے ہیں۔ ممکن ہے جو مشابہت اب نظر آ رہی ہے ایک دو پشتوں کے بعد شاید غائب ہو جائے‘‘ ’’ہمارے دیس میں لوگوں کو عموماً یہ وہم ہے کہ ہر پاکستانی ہندی سے نفرت کرتا ہے لیکن ان کی نہایت اعلیٰ ہندی نظمیں پڑھ کر کافی حد تک یہ غلط فہمی دور ہو سکتی ہے‘‘۔ ’’جھنگ کے قریب آ کر، جھنگ والوں کی بولی سن سن کر مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ وارث شاہ اجنبی اور بیگانہ ہے۔ دھیان بار بار ہیردمودر کی جانب جاتا اور وہ مجھے اصلی اور بیش بہا چیز لگتی‘‘ ’’آج سے دو سال پہلے ایک انگریز مصنف جارج ہاروے نے انگلستان کے جپسی بنجاروں میں رہ کر تحقیق کی تھی کہ یہ لوگ پیچھے سے ملتان کے علاقہ کے ہیں اور کسی وجہ سے دیس چھوڑ کر کئی صدیوں سے دربدر بھٹک رہے ہیں۔ ’’میں سوچتا ہوں کہ اگر اپنی بے قابو لیاقت کا استعمال شیر افضل جعفری نے اپنی مادری زبان کے لئے کیا ہوتا تو اس کی جادوئی شخصیت کے سامنے نشوو نما کی تمام راہیں کھل جاتیں‘‘۔ ’’جھنگ کے سمی ناچ کے سامنے بھنگڑا کوئی چیز نہیں۔ میرے بیان کی سچائی کو وہی دوست پرکھ سکتے ہیں جنہوں نے یہ ناچ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘۔ جہلم بک کارنر کی شائع کردہ یہ کتاب میں تین نشستوں میں جب ختم کر چکا تو ایک نئی اداسی نے مجھے بھی گھیر لیا۔مجھے آج لاہور میں وہ کئی آثار دکھائی نہیں دیتے جو ساہنی نے دیکھ رکھے تھے۔