حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے کی خاطر سخت اقدامات کرے تو کاروباری حضرات اور میڈیا شور مچاتے ہیں کہ بیوپار کے ماحو ل کو خراب کردیا ہے۔ معاشی ترقی کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ اگر حکومت معیشت کے پھیلاؤ کی غرض سے غیر رسمی معیشت کوباقاعدہ بنانے کی کوشش کرے اور کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرنے کے اقدامات کرے تو ماہرین اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کام غیر اخلاقی ہے۔ اس سے ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ غرض کچھ لوگوں کا روّیہ ایسا ہے کہ چور سے کہتے ہیں چوری کرلو‘ تھانیدار سے کہتے ہیں چور کو پکڑ لو۔ ان دنوں بھی ایسی صورتحال ہے ۔ اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے صنعتی ترقی کو تیز کرنے کی خاطر ایک نئی حکمت عملی کااعلان کیا ہے۔ صنعتی شعبہ کو فروغ دینے کے لیے دیگر اقدامات میں یہ ترغیب بھی شامل ہے کہ جو سرمایہ کار صنعتیں لگائیں گے ان سے سرمایہ کے ذرائع آمدن کا نہیں پوچھا جائے گا۔ وہ صرف اس رقم پر حکومت کو پانچ فیصد ٹیکس دیں تو یہ رقم جائز تصور کی جائے گی۔ یعنی اگرکسی کے پاس پوشیدہ رقم ہے تو وہ کارخانہ لگائے ‘ حکومتی ادارے اس سے پوچھ گچھ نہیں کرسکیں گے کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ ایک شق یہ ہے کہ آئی ٹی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو پانچ سال کے لیے ٹیکسوں سے رعایت یاچھوٹ ملے گی۔ بیرون ممالک سے سرمایہ لانے والوںکو بھی ٹیکسوںسے استثنا ملے گا۔ خود کو دھوکہ دینے والی بات ہوگی اگر ہم سوچیں کہ پاکستان میں کالا دھن یا پوشیدہ دولت نہیں ہے۔ ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ ہر قسم کے کاروبار میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔ وہ سرکاری افسرجو پیداگیر قسم کے عہدوں پر فائز ہیںان کی غالب اکثریت رشوت خور ہے۔افغانستان اور ایران سے سمگلنگ کی مالیت ہی سالانہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے۔محتاط اندازہ ہے کہ پاکستان میں جتنی دولت ریکارڈ پر ہے اسکا نصف دستاویزات میں نہیں ۔ یعنی غیررسمی معیشت کا حجم خاصا زیادہ ہے۔ ملک میںعام لوگوں کی جو دال روٹی چل رہی ہے اسکی بڑی وجہ غیر رسمی معیشت ہے۔ اُوپر کی کمائی کا کمال ہے کہ سڑکوں پر چمکتی دمکتی مہنگی مہنگی کاروں کا ہجوم رہتا ہے۔ بڑے بڑے بنگلے کھمبیوں کی طرح اُگتے چلے جارہے ہیں۔ شاپنگ مالز اور برانڈز کی بھرمار ہے۔ چند برس پہلے حکومت نے یہ شرط لگائی کہ کارخریدنے والے کے لیے ٹیکس دہندہ ہونالازمی ہے تو کاروں کی فروخت میں بہت کمی آگئی۔ اس کاروبارسے وابستہ افراد رونے دھونے لگے کہ مندی ہوگئی۔ مرگئے لُٹ گئے۔ ماہرین نے کہنا شروع کیا کہ معاشی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ جب ترقی نہیں ہوگی تو ٹیکس کہاں سے ملے گا؟ بالآخر حکومت نے یہ شرط ختم کردی۔ گاڑیوں کی فروخت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔کارخانے چلنے لگے۔ روزگار بڑھ گیا۔ گھروں میں پوشیدہ مال منڈی میں آگیا۔ حکومت کو بھی کاروں کی فروخت سے زیادہ ٹیکس ملنے لگا۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ دولت سفید ہو یا کالی اگر وہ ملک کے اندر رہے تو اس سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کاروبار وسیع ہوتے ہیں ۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔سرکاری محصولات کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ حکومت جمع شدہ رقم کو خرچ کرتی ہے تو اور لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ سرمایہ گردش میں رہتا ہے۔ نقصان اسوقت ہوتا ہے جب سرمایہ ملک سے باہر منتقل کیاجائے۔ منی لانڈرنگ ہو۔ لوگ دبئی اور لندن میں جائیدادیں خریدیں۔ پاکستان سے سرمایہ نکال کر لندن یا دبئی میں کاروبار کریں۔ جب تک اخلاقی اعتبار سے امیر اور متوسط طبقہ کی اکثریت ایماندار نہیں ہوجاتی اور ملک کے ادارے مضبوط نہیں ہوتے اس وقت تک یہی مناسب ہے کہ دولت جیسی بھی ہے وہ ملک کے اندر کھپتی رہے۔تاہم تمام غیر دستاویزی دولت کا لا دھن نہیں ہے۔ سرمائے کا ایک بڑا حصّہ وہ بھی ہے جو ترسیلاتِ زر کی صورت میں بیرون ممالک سے پاکستانی ملک میں بھیجتے ہیں۔ اسوقت یہ فاضل سرمایہ پراپرٹی میں جارہا ہے۔ حکومت کا صنعتی شعبہ کو ترغیبات دینا درست حکمت عملی ہے۔ پاکستان کا ایک بڑا معاشی مسئلہ صنعتی پسماندگی ہے جس کے باعث ہماری برآمدات بہت کم اور درآمدات بہت زیادہ ہیں۔ اسی وجہ سے ملک ہر وقت زرمبادلہ کے بحران کا شکار رہتا ہے۔ اسوقت صرف کاروں کی خریداری اور شہری جائیداد (پلاٹوں کا کاروبار)کو پوچھ گچھ سے استثنا حاصل ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کاریں اصل سے زیادہ قیمت المعروف اون (پریمیم)پر فروخت ہورہی ہیں۔ پراپرٹی کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں شہروں میں پراپرٹی کی قیمت سو فیصد بڑھ چکی ہے۔ اس سرمایہ کاری کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ پیداواری کام نہیں ۔ نہ اشیا پیدا ہوتی ہیں نہ خدمات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ برآمدات بڑھتی ہیں۔ اگر گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں یہی سرمایہ کاری صنعتوں کے قیام میں ہوتی تو ملک کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ۔ موجودہ سکیم سے پہلے حکومتیں چودہ دفعہ محدود مدت کے لیے کالے دھن کو سفید کرنے کی خاطر ایمنسٹی سکیمیںجاری کرچکی ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) کے گزشتہ دور میں دو بارایمنسٹی اسکیم لائی گئی ۔ آخری بار اس کے ذریعے حکومت نے ایک سو اڑتیس ارب روپے کا ٹیکس حاصل کیا تھا۔دو ہزار اُنیس میںموجودہ حکومت نے ایمنسٹی اسکیم دی تھی جس سے ایک لاکھ دس ہزار افراد نے فائدہ اُٹھایا تھا اور حکومت کو پوشیدہ سرمایہ ظاہر کرنے والوں سے ٹیکس کی مد میں ستّر ارب روپے وصول ہوئے تھے ۔ اس کے بعد کورونا وبا میں مندی کو ختم کرنے کی خاطر تعمیرات کے شعبہ میںسرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ تاہم صنعتی شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے پہلی بار ایسی پالیسی کا اجرا کیا گیا ہے۔بہت اچھا ہوگا کہ اگر حکومت پراپرٹی کے شعبہ میں ایمنسٹی ختم کرے اوراس کی بجائے نئے اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹیاں کھولنے والوںکو بھی ایمنسٹی دے کیونکہ ملک کو تعلیمی شعبہ میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔