ایسانہیں لگ رہا ہے کہ جیسے سینما پر ایک ہی فلم لگی ہوئی ہے جو اترنے کا نام نہیںلے رہی ،فلم بینوں کو بھی شاباش ہے کہ ان کا دل نہیں بھر رہافلم کا ہر شو کھڑکی توڑ ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے ایک عام آدمی آج جن مسائل پر ماتم کناں ہے تین دہائیاں پہلے بھی وہ انہی پراپنی چھاتی پیٹ رہا تھا کچھ اور عرض کرنے سے پہلے ایک کہانی سنئے کہتے ہیں۔ ایک بادشاہ کو اپنی بادشاہت کی فکر لاحق ہوگئی ،سبب رعایا کی بدحالی تھی ،کھیت کھلیانوں میں جو کچھ اگتا اس کے تین حصے سرکاری ہرکارے ٹیکس کی صورت میں لے جاتے ،نوبت یہاں تک آگئی کہ گھوڑوں گدھوں کے چارے پر بھی ٹیکس لگ گیا۔ بادشاہ ادھر ٹیکس لگاتا اور ادھر وزیر مخابر سے بھی پوچھتا رہتا کہ ہاں بھئی رعایا میں کوئی تحریک تو نہیں اٹھ رہی ناں۔کوئی لانگ مارچ کی تیاری تو نہیں ہورہی ،وزیر مخابر اپنے جاسوسوں سے رپورٹ لے کر دست بستہ عرض کردیتا کہ جہاں پناہ! خاطر جمع رکھیں ،ٹھنڈ پرورگرام ہے بادشاہ سکون کا سانس لیتا اور اگلے ہی دن وزیر خزانہ کو طلب کر کے کسی نئے ٹیکس کے بارے میں مشورے کرنے لگ جاتا۔ اک دن بادشاہ کو جانے کیا سوجھی اس نے وزیروں کو طلب کیا اور کہا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہماری رعایا کی برداشت کی حد کیا ہے، وزیروں نے اپنی اپنی تجاویز دیں بادشاہ کو ایک تجویز پسند آئی اس نے حکم نامہ جاری کردیا کہ سلطنت خوش آباد کی رعایاآئندہ بول و براز پر بھی ٹیکس دے گی جس نے انکار کیا وہ کھایا پیا اپنے شکم میں ہی رکھے ،بادشاہ کو توقع تھی کہ اس بیہودہ حکم پر عوام میں ضرور بے چینی پیدا ہوگی جن جن علاقوں میں لوگ احتجاج کریں گے وہیں سے اسکی بادشاہت کو خطرہ ہو سکتا ہے اور وہ ان علاقہ مکینوں کی مشکیں کس دے گا لیکن اسے حیرت ہوئی جب لوگوں نے چپ چاپ یہ ٹیکس بھی دینا شروع کردیا۔ اب بادشاہ نے پھر دربار سجایا اور کہا کہ ہمارا مقصد پورا نہیں ہوا مزید تجاویز دیں اس بار بھی مختلف تجاویز آئیں ایک مشیر نے عرض کیا حضور!حکم جاری کر دیجئے کہ آئندہ ٹیکس ادائیگی پر دو دو چھتر بھی لگائے جائیں گے، اس پر رعایا ضرور بھڑک اٹھے گی اور آپ کی منشاء پوری ہوگی،تجویز خاصی سخت تھی لیکن ظل الہٰی کوپسند آئی، بادشاہ نے پہلے سپاہ کو الرٹ کیا کہ گھوڑوں پر زینیں ڈال دو چوکس رہو ،سپہ سالار نے حکم کی تعمیل کی جس کے بعد اس حکمنامے پر عمل ہونے لگا اب جو بھی ٹیکس جمع کرانے آتا اسے دو چھتر لگائے جاتے اور وہ پشت سہلاتا ہوا اپنی راہ لیتا۔ اس حکم کو تین دن ہوئے تھے کہ وزیر مخابر پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ حاضر ہوا اورکورنش بجالایا حضور !محل کے باہر خلق خدا جمع ہے ،ملنا چاہتی ہے بادشاہ گھبرا گیا لیکن ظاہر ہونے نہیں دیا ۔سپہ سالار سے کہا کہ محل کے گرد حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیئے جائیں، چھت پرماہر تیر انداز بھی بٹھا ئے جائیں لوگوں کو کچلنے کے لئے ہاتھیوں کو بھی تیار رکھا جائے ،سارے انتظامات ہوجانے کے بعد بادشاہ نے مظاہرین کے وفد کو دربار میں طلب کیا تھوڑی دیر بعد بوسیدہ لباس میں تین کمزور و نحیف افراد دربار میں پہنچے ان کی چہروں کی زردی ان کی بدحالی کی گواہی دے رہی تھی۔ انہوں نے دربار میں بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا حضور ! جان کی امان پائیں تو عرض کریں ،بادشاہ نے آنکھوں کے اشارے سے امان دیم گردن نہ ہلا سکا کہ سریا پڑا ہواتھاوہ ہمہ تن گوش ہو گیا کہ بس اب رعایا کہے گی کہ ہم سے اور ظلم نہیں سہا جاتا ،ساتھ ہی بادشاہ نے طے کر لیا کہ اس نے کون کون سے ٹیکس فورا ہی ختم کرنے کا اعلان کرنا ہے۔ بادشاہ اسی سوچ میں تھا کہ مظاہرین کے نمائندہ وفد میں سے ایک آگے بڑھا اور تھوک نگل کر کہنے لگا ،حضورکا اقبال بلندہومسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے ہرکاروں کے ساتھ دروغہ جی نے ایک ایک سپاہی دے رکھا ہے جو ہر ٹیکس دہندہ کو دو دو چھتر مارتا ہے ،یہ ان کی جانب سے بڑی بھاری غفلت ہے، یہ ایک سپاہی کے بس کا کام نہیں ہے ،بہت وقت صرف ہوتا ہے،کام دھندے پر ہرج ہوتا ہے خدارا! چھتر پریڈ کرانے والے سپاہیوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ایسا ہی کچھ اپنے یہاں بھی ہے ،وطن عزیز میں مہنگائی کی ڈائن غریب عوام کا لہو چوستی پھر رہی ہے ،اتنی جلدی نزلہ زکام بھی ٹھیک نہیں ہوتا جتنی سرعت سے بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں ،ایک خبر آتی ہے کہ وفاقی حکومت فلاں مہینے کے فیول ایڈجسٹمنٹ کے لئے نیپرا پہنچ گئی دوسرے دن سماعت میں چیئرمین نیپرا منمناتے ہوئے حکومت کو نظرثانی کا کہتاہے اورپھر بجلی کے یونٹ کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ جاری کردیتاہے،عوام بلکہ درست لفظ ’’رعایا‘‘ ہے، اس بجلی کے جھٹکے کو بمشکل برداشت کرپاتی ہے کہ اوگرا کی جانب سے پٹرو ل ڈیزل کی قیمت بڑھنے کا حکم نامہ جاری ہوجاتا ہے یہ پریکٹس جاری تھی کہ اب حکم آیا ہے کہ سردیوں میںصرف تین وقت کھانا پکانے کے لئے گیس دستیاب ہوگی ۔ یعنی بندہ سرنہ پیٹ لے ! کپتان مہنگائی کے پچھلے سارے ریکارڈ چکنا چور ہوچکے ہیں ،ٹیکسوں کا جال ایسا ہے کہ سچ میں اب تو بول و براز پرہی ٹیکس لگنا باقی رہ گیاہے ،گورنس کا عالم یہ ہے کہ صبح دفتر آنے والے کو خبر نہیں ہوتی کہ وہ دوپہر تک رہے گا یا کوئی چارج لینے آئے گا،پنجاب حکومت کے سات بار ترجمان تبدیل ہوچکے ہیں ،وفاق میں چار بار وزیر خزانہ بدلے جاچکے ہیں ،تبدیلی سرکار میں کیا کچھ تبدیل نہیں ہوا بس نہیں تبدیل ہوئے تو غریب کے تلخ دن ۔مجھے حیرت تو اپنے ہم وطنوںکی خاموشی اور چپ پر ہے، ہم وطنو آپ کو شاباش ہے ،شاباش وصول کریں اور قتیل شفائی کا یہ شعر بھی سنیں دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا